دوسری عالمی جنگ سے سیکھے ہوئے اسباق
1 ستمبر 2014آج دنیا بھر میں پولینڈ پر نازی جرمنی کے حملے کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر یادگاری تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے 75 سال مکمل ہونے پر آج جرمن دارالحکومت برلن میں وفاقی جرمن پارلیمان کی طرف سے عراق کے کرد جنگجوؤں کو جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ مقابلے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے کی متنازعہ تجویز کی منظوری محض ایک اتفاق ہے۔ 1945ء کے بعد سے اب تک کی جرمن تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جرمنی کسی جنگ میں شریک فریق کو اسلحہ فراہم کرے گا اور اس طرح کسی بحران میں مسلح مداخلت کرے گا۔
ہتھیاروں کی اس فراہمی پر جرمنی کے سیاسی حلقوں میں گہری تشویش کا باعث وہ سبق ہیں، جو نازی سوشلسٹ دور کے تجربات سے حاصل کیے گئے ہیں۔
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے بانیوں نے ملکی آئین میں یہ شق شامل کی تھی کہ جرمن سر زمین سے آئندہ کبھی بھی جنگ نہیں شروع کی جائے گی۔ جرمن آئین کے مطابق ایسے اقدامات، جن کا مقصد اقوام کے مابین پُر امن تعلقات کو نقصان پہنچانا ہو یا جو جارحانہ حملوں کی تیاری میں مدد گار ثابت ہوں، ملکی آئین کی کُھلی خلاف ورزی ہوں گے۔
ایک طویل رستہ
محض جرمنی کے سیاسی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ جرمن عوام میں بھی آمر حکمران ہٹلر کے مظالم کو پہچاننے اور اپنی تاریخ کے اُس تاریک باب کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے عمل میں کافی طویل وقت لگ گیا۔ دوسری جانب 1945ء کے بعد پسِ پردہ چلے جانے والے بہت سے نازی ایک بار پھر عدلیہ، تعلیمی اداروں یا سرکاری دفاتر میں اعلٰی عہدوں پر فائز ہو گئے۔
1950ء کے عشرے میں میڈیا کو کسی حد تک آزادی حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔ 1956ء میں ایک سیلف ریگولیٹری انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا، جس میں پبلشرز اور صحافیوں کی تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔ اس ادارے نے میڈیا پر سے ریاست کا کنٹرول ختم کروانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
مشرقی اور مغربی جرمنی میں فرق
مغربی جرمنی میں ہٹلر کے دور کے بارے میں کُھل کر عوامی بحث و مباحثے کا سلسلہ 1960ء کے عشرے میں اُس وقت شروع ہوا جب طلباء تحریکیں فعال ہوئیں اور انہوں نے ناکہ بندیاں شروع کیں۔ ان طالبعلموں کی تنقید کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ جرمنی میں ماضی سے نمٹنے کا طریقہ کار ناقص ہے۔
اُدھر مشرقی جرمنی یا جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک میں دیوار برلن کے انہدام تک نازی دور کے بارے میں کھُل کر بات چیت کا کوئی رواج نہیں تھا۔ اُس وقت تک جرمن تاریخ کے اُس تاریک باب کو سوشلسٹ اور اینٹی فاشسٹ نعروں سے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی اور نازی دور کے اسباق اور اُس کے اثرات سے چشم پوشی کی جاتی رہی۔ اس کے علاوہ مشرقی جرمنی میں واحد سیاسی پارٹی پر مشتمل حکومت تھی اور حزب اختلاف کی آواز دبانے اور اپنا پرچار کرنے کے لیے جی ڈی آر حکومت وہی حربے استعمال کر رہی تھی، جو ہٹلر دور حکومت میں اپنائے گئے تھے۔
اسکولوں میں تعلیم و آگہی
آج کل یہ حقائق جرمن اسکولوں کے نصاب میں تاریخ کی لازمی تعلیم کا حصہ ہیں کہ یکم ستمبر 1939ء کو عالمی تاریخ میں ظلم و تشدد سے عبارت وہ بدترین جنگ نازی سوشلسٹوں نے جرمن سرزمین سے شروع کی تھی، جس کے دوران چھ ملین یہودیوں سمیت 50 سے 60 ملین انسان مارے گئے، جن میں بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق تاریخ کے بارے میں دی جانے والی تعلیم آج کل کے جرمنی میں نازی نظریات کے مکمل خاتمے میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہوئی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی بھی جرمنی میں نیو نازی گروپ پائے جاتے ہیں، جو ہٹلر کے خیالات یا تصورات کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کھلے عام ہٹلر کے دورِ حکومت کو جائز یا حق بجانب کہنے والے کو تین سال تک کی سزائے قید کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کھلے عام جرمنی میں کئی ملین یہودیوں کی ہلاکت سے انکار کرنے والے کو تو پانچ سال تک کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔