دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا بحران، جاپانی وزیر اعظم
14 مارچ 2011موجودہ قدرتی آفت کے تناظر میں جاپانی وزیراعظم نے کہا ہے کہ ان کا ملک دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ اتنے بڑے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ جاپانی حکام کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد سولہ سو تک پہنچ چکی ہے تاہم پولیس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں صرف Miyagi نامی علاقے میں ہی کم ازکم دس ہزار افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔
جاپانی وزیر اعظم ناؤتو کان نے کہا ہے کہ زلزلےاور سونامی کی تباہی سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے جوہری بحران کے خطرات کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جاپان اس وقت ایسے بدترین بحران سے گزر رہا ہے، جو آخری مرتبہ دوسری عالمی جنگ کے دوران دیکھا گیا تھا۔ کان نے قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا،’ یہ ہم سب پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح اس بحران پر قابو پاتے ہیں‘۔
جاپان میں جمعہ کے دن ریکٹر اسکیل پر 8.9 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے بعد ضمنی جھٹکوں کا سلسلہ جاری ہے۔ زلزلے کےبعد سونامی نے کئی علاقوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس وقت متاثرہ علاقوں میں تین لاکھ سے زائد افراد عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
اس صورتحال میں جاپانی وزیر اعظم نے اپنے نشریاتی خطاب میں عوام سے اپیل کی کہ وہ قوم کو اس مشکل وقت سے نکالنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحتیوں کو بروئے کار لائیں۔ ناؤتو کان نے کہا کہ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں ملک بھر میں توانائی کی کمی واقع ہو سکتی ہے، اس لیے عوام بجلی احتیاط کے ساتھ صرف کریں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جاپان میں اس وقت دو ملین افراد بجلی کے بغیر ہیں جبکہ 1.4 ملین افراد پانی کی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔
اپنےاس خطاب میں تاہم کان نے واضح کیا کہ زلزلے سے تباہ ہونے والے فوکو شیما جوہری بجلی گھر کو کوئی سنگین خطرہ لاحق نہیں ہے اور یہ چرنوبل جیسا حادثہ ہر گز نہیں بن سکتا،’ اگرچہ متاثرہ ایٹمی ری ایکٹر سے خارج ہونے والی تابکاری ہوا میں داخل ہوئی ہے تاہم ایسی اطلاعات نہیں ہیں کہ یہ اخراج ایک بڑی سطح پر ہوا ہے‘۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ حادثہ چرنوبل کے واقعہ سے بے حد زیادہ مخلتف نوعیت کا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین