1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن پر روسی حملہ: بہت بڑے سانحے کے خطرات

25 فروری 2022

یوکرائن پر روس کے حملے نے دنیا کی توجہ چند نئے حقائق اور محرکات کی طرف مبذول کروا دی ہے۔ عالمی سیاست کے تاریخی پہلوؤں پر گہری نظر رکھنے والے پاکستانی ماہرین اس نئی صورتحال کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/47bV7
Ukraine-Krieg | Kiew
تصویر: Emilio Morenatti/AP/dpa/picture alliance

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عالمی سیاسی منظر نامہ مختلف ادوار میں بدلتا رہا اور اس بساط کے اہم ترین مہروں کی نقل و حرکت اور حکمت عملی بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کے مابین رسہ کشی پھر سے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد وجود میں آنے والے مختلف 'اتحادی بلاکس‘ بھی دنیا کی سیاسی اور اقتصادی سیاست میں غیر معمولی کردار کے حامل ہو چُکے ہیں۔

چند روایتی حلیفوں اور حریفوں کے رویوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اب چند نئے محرکات عالمی سیاست کا حصہ بن چُکے ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو روس کی یوکرائن میں فوجی پیش قدمی نے سنگین تشویش اور نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔

چیک جمہوریہ میں تاریخی فوجی بنکرز برائے فروخت

عالمی سیاست کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟

اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کے چیئر مین ڈاکٹر نعیم احمد کا کہنا تھا،''سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا مینڈیٹ تبدیل ہوا۔ بلقان کا خطہ ہو یا افغانستان یہاں بھی نیٹو کا کردار تبدیل ہوا۔ مغربی دفاعی اتحاد کو بڑھایا گیا اس میں توسیع ہوئی۔ 90 کی دہائی ہو یا دو ہزار بیس کے بعد سے اب تک روس اس صورتحال پر تشویش کا شکار تھا، جس پر روس نے سفارتی سطح پر احتجاج بھی کیا اور اپنی طاقت کے مظاہرے کے ذریعے بھی کیا۔ نیٹو کی توسیع کا سلسلہ تاہم جاری رہا۔ ماضی میں سوویت یونین کا حصہ رہنے والے علاقوں میں امریکی یا مغربی طاقتوں کی مداخلت جاری رہی۔

پولینڈ: ضبط شدہ املاک کی واپسی ممکن نہیں

Russland - Anti-Kriegs-Demo
روسی حملے کے خلاف مظاہرہتصویر: picture alliance/dpa/AP

پوٹن کے دور اقتدار میں روس اس قابل بن گیا کہ مغربی اتحاد کی اس مداخلتی پالیسی کا مقابلہ کر سکے۔ سفارتی اور عسکری دونوں سطح پر۔ دو ہزارآٹھ میں روس نے جب جارجیا میں مداخلت کی تھی اور اُس کے بعد 2014 ء میں کریمیا کے علاقے پر حملہ کیا تھا اُسی تناظر میں اب روس اُس علاقے میں جہاں اُس کا تسلط رہا ہے وہاں مغربی مداخلت نہیں چاہتا۔ یوکرائن ایک وقت تک سابق سوویت یونین کا حصہ تھا۔ لہذا روس کے سکیورٹی تحفظات بھی ہیں اور اُس کا ان علاقوں کے ساتھ قریبی جذباتی لگاؤ بھی ہے۔ روس کبھی نہیں چاہے گا کہ یوکرائن نیٹو کا حصہ بنے۔‘‘

نیوکلیئر جنگ کے خطرات

بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی جامعہ کراچی کی شعبہ بین الاقوامی امور کی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم موجودہ حالات کو جوہری جنگ کے امکانات کے تناظر میں نہایت خطرناک صورتحال قرار دیتی ہیں۔

تہہ خانے میں دوسری عالمی جنگ کے ٹینک کا کیا بنے گا؟

ان کا کہنا ہے کہ یوکرائن بذات خود روسی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اُسے مغربی یورپی ریاستوں یا امریکا کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ اُدھر روس دھمکی دے چکا ہے کہ اس قسم کی کسی مغربی مداخلت کی صورت میں ماسکو جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے نہیں رُکے گا۔ اس صورت میں انسانی جانوں کا نقصان دونوں طرف روس میں بھی اور یوکرائن میں بھی، غیر معمولی حد تک ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر شائستہ کہتی ہیں کہ ایسی جنگیں جو روایتی طریقہ کار سے نکل کر جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک پہنچ جائیں، کسی سرحد کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔

Bilder aus der Ukraine - Agenturfotograf Bulent Kilic
ڈونیٹسک میں قائم ایک مہاجر کیمپ میں بچوں کی صورتحالتصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images

'یوکرائنی عوام کا مایوس کُن ردعمل‘

روس یوکرائن تنازعہ آئندہ چند دنوں میں بہت خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ روس کو اس وقت روکا نہ گیا تو یورپ کے دیگر علاقے بھی روسی حملے کے خطرات سے خالی نہیں رہیں گے۔ یہ کہنا ہے پاکستان کے معروف سیاسی تجزیہ کار پروفیسر مونس احمر کا۔

جرمنی: دوسری عالمی جنگ کے دور کا پانچ کوئنٹل کا بم دریافت

 ڈی ڈبلیو کو اس بارے میں اپنا جائزہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر احمر نے کہا،'' روس سُرخ لائن عبور کر چُکا ہے۔ اقوام متحدہ کا ممبر، ایک خود مختار ملک جارحیت کا نشانہ بنا ہے۔ روس نے پہلے کریمیا پر قبضہ کیا اُس کے بعد مشرقی یوکرائن میں آباد روسی آبادی کو بھڑکایا۔ ولادیمیر پوٹن ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر مونس احمر کا کہنا تھا کہ انہیں پوکرائن کے عوام کے رد عمل سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا،''مجھے توقع تھی کہ یوکرائن کی عوام مزاحمت کریں گے لیکن میڈیا رپورٹوں سے تو یہ پتا چل رہا ہے کہ یوکرائنی عوام اپنے ملک کا دفاع کرنے کی بجائے اے ٹی ایم مشینوں سے پیسے نکلوانے اور گروسی شاپس سے اشیائے خورد و نوش خریدنے اور پٹرول پمپس پر قطاروں میں لگنے یا پھر ملک سے فرار ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس طرح روس کو تقویت ملے گی۔ اگر یوکرائن کے عوام کھڑے نہیں ہوتے اور یوکرائنی فوج صحیح معنوں میں مزاحمت نہیں کرتی تو روس مزید طاقت دکھائے گا۔ یوکرائن کے اتحادی مغربی ممالک روس پر پابندیوں کا اعلان کر کے بیٹھے ہیں، اس سے روس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اگر نیٹو، مغرب، امریکا اور یورپی یونین نے کوئی براہ راست اقدام نہیں اُٹھایا اور روس نے یوکرائن پر قبضہ کر لیا تو یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے بڑا سانحہ ہوگا۔ آج یوکرائن ہے کل کو کوئی اور ملک بھی روسی جارحیت کا نشانہ بنے گا۔‘‘

  کشور مصطفیٰ