دوما میں کیمیائی حملے کے شواہد نہیں ملے، روس
9 اپریل 2018پیر کے روز سیرگئی لاوروف نے کہا کہ شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ کے علاقے کے دوما نامی شہر میں دو روز قبل کیمیائی حملے سے متعلق سامنے آنے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ’’ہمارے عسکری ماہرین نے علاقے کا دورہ کیا اور انہیں وہاں کلورین یا کسی بھی دوسرے ایسے کیمیائی مواد کی موجودگی کے اشارے نہیں ملے، جو عام شہریوں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
شام میں زہریلی گیس استعمال ہوئی، مگر ذمہ دار کون؟
اسد کو بھاری قیمت چکانا ہو گی، صدر ٹرمپ
شام میں مشتبہ کیمیائی حملہ: 100 سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ
لاوروف نے اپنے بیان میں شامی فضائی اڈے پر حملے کو بھی ’انتہائی خطرناک پیش رفت‘ قرار دیا۔ شام کے فضائی اڈے پر حملے کا الزام دمشق اور ماسکو حکومتوں نے اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
لاوروف نے کہا، ’’مجھے امید ہے کہ امریکی فوج اور وہ تمام ممالک جو امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہیں، اس بات کو سمجھیں گے۔‘‘
اس سے قبل روسی فوج نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے لبنان سے شامی فضائیہ کے ایک اڈے کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا تھا کہ پیر کی علی الصبح شام کے ٹی فور فضائی اڈے پر کیے جانے والے اس حملے میں 14 جنگجو ہلاک ہوئے تھے، جن میں ایرانی شہری بھی شامل تھے۔
آبزرویٹری کے مطابق فضائیہ کے اس اڈے پر شامی فورسز کے علاوہ روس اور ایران سے تعلق رکھنے والے اہلکار بھی تعینات تھے، جب کہ اس اڈے کو لبنانی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ بھی استعمال کرتی رہی ہے۔ واشنگٹن اور پیرس حکومتوں نے اس حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کو رد کیا تھا۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے فرانسیسی ہم منصب امانویل ماکروں سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ باغیوں کے زیرقبضہ دوما کے علاقے میں کیمیائی حملے کے انتہائی مضبوط جواب دیا جائے گا۔ ادھر برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن نے بھی بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مبینہ کیمیائی حملے کا مضبوط جواب دے۔ انہوں نے اس موضوع پر اپنے فرانسیسی ہم منصب ژاں ایو لے دریاں سے بھی بات کی۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس بھی آج منعقد ہو رہا ہے، جس میں اس واقعے پر بحث کی جائے گی۔