1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولایشیا

ایشیا: دوہزار تئیس میں موسمی آفات سے سب سے زیادہ متاثرہ خطہ

4 مئی 2024

دوہزار تئیس میں ایشیا میں پانی سے متعلقہ موسمی خطرات سے منسلک اناسی آفات رپورٹ کی گئیں۔ ان میں اسی فیصد سے زیادہ سیلاب اور طوفان تھے جو دوہزار سے زیادہ اموات کا سبب بنے اور دیگر نوے لاکھ افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے۔

https://p.dw.com/p/4f6Ba
پاکستان میں حالیہ سیلاب کے  بعد کے مناظرجس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں چھتیس افراد کی ہلاکت رپورٹ ہوئی
پاکستان میں حالیہ سیلاب کے بعد کے مناظرجس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں چھتیس افراد کی ہلاکت رپورٹ ہوئیتصویر: Akhter Gulfam/EPA

اقوام متحدہ کے مطابق ایشیا دوہزار تئیس میں موسمیاتی اور موسمی خطرات سے دوچار دنیا کا سب سے زیادہ تباہی کا شکار خطہ رہا، جہاں سیلاب اور طوفانوں کی وجہ سے جانی اور معاشی نقصانات ہوئے۔ گزشتہ سال عالمی درجہ حرارت ریکارڈ بلندی پر پہنچ گیا تھا، اقوام متحدہ کی موسمیاتی ایجنسی نے کہا کہ ایشیا کا درجہ حرات خاص طور پر تیز رفتاری سے گرم ہو رہا ہے۔

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق ایشیا میں گرمی کی لہروں کے اثرات زیادہ شدید ہوتے جا رہے ہیں، گلیشیئر پگھلنے سے مستقبل میں خطے میں پانی کی کمی کا  خطرہ ہے۔

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق ایشیا عالمی اوسط سے زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے، گذشتہ برس درجہ حرارت انیس سو اکسٹھ سے انیس سو نوے کے اوسط سے تقریباً دو ڈگری سیلسیس زیادہ گرم تھا۔

شنگھائی: خواتین دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے چھتری کا استعمال کرتے ہوئے
شنگھائی خواتین دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے چھتری کا استعمال کرتے ہوئےتصویر: AFP

ظالم گرمی نے بھارتی شہریوں کا جینا کس طرح مشکل کر رکھا ہے؟

ڈبلیو ایم او کے سربراہ سیلسٹی ساؤلو نے ایک بیان میں کہا،''رپورٹ کے نتائج حیران کن ہیں۔‘‘

''خطے کے بہت سے ممالک کو دوہزار تئیس میں ریکارڈ گرم ترین سال کا سامنا تھا، اس کے ساتھ ہی خشک سالی اور گرمی کی لہروں سے لے کر سیلاب اور طوفان جیسے شدید حالات پیدا کیے۔ ''موسمیاتی تبدیلی نے اس طرح کے واقعات کی تعدد اور شدت کو بڑھا دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے معاشروں، معیشتوں، اور سب سے اہم بات، انسانی زندگیوں اور ماحولیات پر گہرا اثرات  پڑتے  ہیں۔‘‘

اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ اِن ایشیا دوہزار تئیس کی رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے اہم اشاروں جیسے کہ سطح کے درجہ حرارت، گلیشیئر کا پگھلنا اور سطح سمندر میں اضافے کی تیز رفتار شرح کو اجاگر کیا گیا، اور کہا گیا کہ ان سب کے خطے کے معاشروں، معیشتوں اور ماحولیاتی نظام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان کے شہر پشاور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث غیر متوقع بارشوں کے بعد کی صورتحال
پاکستان کے شہر پشاور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث غیر متوقع بارشوں کے بعد کی صورتحال تصویر: Hussain Ali/Zuma/IMAGO

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت، آج کی دنیا کی ایک حقیقت

ڈبلیو ایم او نے کہا، ''ایشیا دوہزار تئیس میں موسم، آب و ہوا اور پانی سے متعلق خطرات سے دنیا کا سب سے زیادہ تباہی کا شکار خطہ رہا۔‘‘

رپورٹ کے مطابق، مغربی سائبیریا سے لے کر وسطی ایشیا تک اور مشرقی چین سے لے کر جاپان تک خاص طور پر بلند اوسط درجہ حرارت کو ریکارڈ کیا گیا۔ جاپان میں بھی موسم گرما میں ریکارڈ  گرم ترین موسم  رہا۔ جبکہ ہمالیہ اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں، پاکستان اور افغانستان میں بارشیں بھی معمول سے کم  ہوئیں اور وہیں چین پورا سال معمول سے کم بارش کے سبب خشک سالی کا شکار رہا۔

بلند پہاڑی ایشیائی خطے میں گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران زیادہ تر گلیشیئروقت سے پہلے اورزیادہ تیز رفتاری سے پگھلنے لگے ہیں۔ ڈبلیو ایم او نے کہا، ''خطے میں جانچ کیے گئے بائیس میں سے بیس گلیشیئرز گذشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے۔‘‘

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ایک شخص گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے خود پر پانی ڈالتے ہوئے
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ایک شخص گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے خود پر پانی ڈالتے ہوئےتصویر: Fida Hussain/AFP/Getty Images

پانی کا بحران: پاکستان خشک کیوں ہو رہا ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمال مغربی بحر الکاہل میں دوہزارتئیس میں سمندری سطح کا درجہ حرارت اب تک کے ریکارڈ میں سب سے بلند تھا۔

دوہزار تئیس میں ایشیا میں پانی سے متعلقہ موسمی خطرات سے منسلک اناسی آفات کی اطلاع ملی۔ ان میں سے اسی فیصد سے زیادہ سیلاب اور طوفان تھے، جن میں دوہزار سے زیادہ اموات اور نوے لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوئے۔ ڈبلیو ایم او کے مطابق، ''دوہزارتئیس میں رپورٹ ہونے والے واقعات میں اموات کی سب سے بڑی وجہ سیلاب بنے۔‘‘

 ڈبلیو ایم او نے آفات کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کام کرنے والے اہلکاروں کے لیے موزوں معلومات کو بہتر بنانے اور خطے میں قومی موسمی خدمات کی فوری ضرورت پرزور دیا ہے۔ ساؤلو نے کہا، ''وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے اس حوالے سے فوری اقدمات کریں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا اور بدلتی ہوئی آب و ہوا کے مطابق اقدامات محض ایک آپشن نہیں ہے، بلکہ ایک بنیادی ضرورت ہے۔‘‘

ف ن/ ک م (اے ایف پی)

ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے کلائمیٹ چینج سیل