سیاسی رسہ کشی کے لیے مذہب کے استعمال کا ایک اور ثبوت
28 نومبر 2017’پاک سر زمین‘ کہلانے والے جنوبی ایشیا کے اس ملک کی تاریخ میں بہت سے ادوار رقم کیے جا چکے ہیں جن سے پاکستانی معاشرے کی زبوں حالی اور فکری، اخلاقی اور سیاسی بدحالی کے انتہائی مایوس کن واقعات منسوب ہیں۔ ہاں ایک عنصر جو ان تمام واقعات میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے، وہ ہے مذہب کا سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال۔ اس کی ایک بہت واضح مثال 70 کی دہائی میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مذہبی جماعتوں نے مل کر اتحاد بنایا تھا اور اس کا مقصد ابتدائی طور پر 1977 ء کے انتخابات کے نتائج کا بائیکاٹ کرنا اور سیکولر ذہن رکھنے والے مغرب زدہ سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو کسی صورت اقتدار سے دور رکھنا تھا تاہم اس اتحاد نے جلد ہی پاکستان نیشنل الائنس قائم کر کے ملک کے تمام مذہبی رہنماؤں کو اکٹھا ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کر دیا جس نے اپنے سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا اور عوام میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔ تب ہی سے ذوالفقار علی بھٹو کا زوال شروع ہوا یہاں تک کہ انہیں ایک آمر فوجی کے حکم پر تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔
فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے بوئے ہوئے بیج کتنے بارآور ثابت ہوں گے اس کا اندازہ شاید ہی صحیح طور پر لگایا جا سکا ہو، ایک ہی درخت کی کتنی شاخیں ہوں گی جو ملک بھر میں پائے جانے والے مذہبی انتہا پسندوں کو سایہ فراہم کریں گی؟ اس کا احساس دہائیوں بعد ہو رہا ہے۔
ایک طرف بدعنوان اور نااہل سیاستدانوں کی نسل در نسل اور خاندانی جاگیر کی شکل میں چلی آرہی سیاست ہے تو دوسری جانب انتہائی مضبوط ہاتھوں والی فوج اور اسٹبلشمنٹ ہے، جو جب چاہیں ملک اور قوم کی قسمت کا فیصلہ اپنے مفادات اور اپنی حکمت عملی کے تحت کھڑے کھڑے کروا دیں، ایسے میں پاکستانی عوام کے پاس آپشنس کیا ہیں؟
طالبان، امریکی اور سعودی ایجنڈا پر کام کرنے والے گروپ، ایران جو علاقائی سیاست میں اپنے مفادات کے لیے سرگرم ہے، داعش یا ملک کے قیام سے اب تک چلی آ رہی وڈیرہ شاہی اور خاندانی سیاست۔ عوام ایک کے چنگل سے نکلتے ہیں تو دوسرے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ جس ملک میں پانی و بجلی اور روزگار کے مسائل عوام کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو سلب کر دیں وہاں آئے دن کسی نئی مذہبی تحریک کے نعرے سننے کو ملیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ دین اسلام کی جو شکل پاکستان میں رائج ہو چکی ہے، اس میں ہر مسئلے کا حل عقیدے میں ڈھونڈا جاتا ہے۔
توہین رسالت کے متنازعہ قانون پر رہ رہ کر شور اٹھانا اور اسے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کا وتیرہ تو بن ہی چکا ہے، اب اس میں پاکستانی فوج کا کردار بھی دکھائی دینے لگا ہے۔
متعدد ہلاکتوں اور ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ اور دیگر پر تشدد کارروائیوں سے پہنچنے والے نقصانات اور ان سے عوام کو پیش آنے والی دشواریوں کے بعد پير ستائيس نومبر کو فوج کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے بعد دھرنے کے خاتمے کا اعلان ہوا اور وہ بھی نہایت ڈرامائی انداز میں۔ مظاہرین کے مطالبات پورے کرتے ہوئے وزیرِ قانون زاہد حامد نے استعفیٰ دیا جسے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے منظور کر لیا۔ ادھر احتجاج کرنے والے تحريک لبيک يا رسول اللہ کے سربراہ خادم حسين رضوی نے اپنے قريب ان ڈھائی ہزار حاميوں )جنہیں آٹھ ہزار سے زائد پولیس اہلکار منتشر کرنے میں ناکام رہے( سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’آرمی چيف کی يقين دہانی پر ہم دھرنا ختم کر تے ہيں۔‘‘
پاکستانی وزير قانون مستعفی، دھرنا ختم
دھرنا ختم لیکن تنقید و تبصرے جاری
اسلام آباد دھرنے کے خلاف پولیس آپریشن جاری
پاکستان: دھرنے کے بارے میں پانچ اہم باتیں
ایک ڈرامہ ختم دوسرا شروع
پاکستان میں لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگانے والوں کو خاموش کروا کر وزیر اعظم پاکستان خاقان عباسی، وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سعودی عرب کے ایک روزہ دورے پر ریاض پہنچ گئے، جہاں ان کا استقبال شاہ سلمان ایئر بیس پر ریاض کے گورنر پرنس فیصل بن بندر السعود نے کیا۔
وزیر اعظم عباسی نے خادم الحرمین و شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود اور شہزادہ محمد بن سلمان السعود سے ظہرانے پر ملاقات کی۔ وزیر اعظم پاکستان کی سعودی فرمانروا کے ساتھ ملاقات میں متعدد شعبوں اور معاملات میں باہمی تعلقات کے دائرہ کار وسیع تر کرنے اور علاقائی اور عالمی سیاست میں ایک دوسرے کی تائید و حمایت پر مزید زور دیا گیا۔ اس موقع پر سعودی بادشاہ نے پاکستانی سر زمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی حکام کے اقدامات کی ستائش کی جبکہ وزیر اعظم پاکستان نے سعودی عرب کے ایما پر مسلم ممالک کی اکثریت کے اتحاد پر مشتمل آئی ایم سی ٹی سی( اسلامک ملٹری الائنس ٹو کومبیٹ ٹیررازم) کی تشکیل میں ریاض حکومت کی کوششوں کو سراہا۔
وزیر اعظم اور آرمی چیف تو فیض آباد پر تین ہفتوں سے جاری دھرنا ختم کروانے کے بعد سعودی عرب پہنچے۔ ادھر وفاقی حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے درمیان تحریری معاہدے پر انٹر سروسز انٹیلی جنس سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر میجر جنرل فیض حمید کے دستخط ہونے کے موضوع پر ملک کے اندر ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لیے طے پانے والے معاہدے میں آرمی چیف کی آزادانہ حیثیت پر سوال اٹھایا ہے اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آرمی چیف کی بطور ثالث حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔
اس طرح پاکستانی فوج نے ایک بار پھر اس تاثر کو مزید مضبوط کر دیا ہے کہ ملکی سیاسی دھارے کو موڑنا فوج کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ دوسری جانب اگر پاکستان کی سول حکومت اور فوج دونوں ہی پر سے عوام کا اعتماد پوری طرح اٹھ جائے تو ملک میں ہر طرح کی انتہا پسندی اور مذہبی شدت کی یہ شکل جو اس وقت نمایاں ہے، کسی تعجب کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔