دھماکوں کے بعد کراچی میں سرچ آپریشن شروع
5 فروری 2010شہیدان کربلا کے چہلم کے موقع پرکراچی کی شاہراہ فیصل پر اعزاداروں سے بھری ایک بس پر ہونے والے بم حملے کے بعد جناح ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر دوسرا بم دھماکہ ہوا۔ ان دونوں واقعات کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 25 ہوچکی ہے جبکہ 100افراد زخمی ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق پہلا بم دھماکہ اس وقت ہوا جب شیعہ مسلمانوں سے بھری ایک بس شاہراہ فیصل سے گزرتی ہوئی نمائش کی طرف رواں تھی کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے اپنی بائیکس کو بس کے نیچے سلپ کرتے ہوئے ایک ٹیلی وژن اسکرین پھینکی، اطلاعات کے مطابق اس اسکرین میں بم نصب تھا۔ تاہم پولیس اور دیگر سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ یہ خود کُش بم حملہ تھا۔
اسی قسم کا دوسرا بم دھماکہ جناح ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے سامنے ہوا۔ تاہم پولیس ان دونوں ہی حملوں کو خود کُش بم حملہ قرار دے رہی ہے۔
دریں اثناء پولیس نے جناح ہسپتال کے پارکنگ ایریا سے ایک ٹیلی وژن سیٹ قبضے میں لے لیا اور اس میں نصب بم کو ناکارہ بنادیا ہے۔ شیعہ اقلیتی گروپوں کے اتحاد ’جعفریہ الائنس‘ سمیت سنی علماء اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوٴں نے ان پرتشدد واقعات کی کڑی مذمت کی ہے۔
ایم کیو ایم کے طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا:’’ہمارا یہ موقف درست ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں Talibanisationہے اور دہشت گرد عناصر اپنا دائرہ کار اس کثیرالسانی شہر میں بڑھاتے جا رہے ہیں۔‘‘
جمعہ کے بم حملوں میں زخمیوں کو کراچی کے لیاقت نیشنل، آغا خان اور عباسی شہید ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ،اکٹر تمام پرائیوٹ ہسپتالوں میں زخمیوں کا اعلاج کریں گے اور یہ کہ اس کے اخراجات حکومت ادا کرے گی۔ ادھر رینجرز کے سخت پہرے میں اعزاداروں کے جلوس کو حسینیہ ایرانیہ پہنچا دیا گیا ہے۔
ادھر پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک دو روز سے کراچی میں موجود ہیں۔ ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ چہلم کے موقع پر سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے ہیں۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں امن و امان قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: گوہر نذیر گیلانی