’دہشت گرد تنظیمیں اسلام کی تضحیک کا باعث بنتی ہیں‘
25 اپریل 2019یہ دورے کتنے ضروری ہیں اور کیا ان سے مسلم اور دیگر ممالک کے درمیان مکالمت کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے؟ دنیا بھر میں ایک طرف تو مسلم انتہاپسندی کے واقعات دکھائی دے رہے ہیں اور دوسری جانب اسلاموفوبیا میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ شدت پسندی کا تدارک کیا ہے اور اسلاموفوبیا میں اضافے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
’بہاولپور میں تعلیم نے معلم قتل کر دیا‘
’ایرانی انقلاب‘ سے کیا خطے میں شدت پسندی بڑھی ہے؟
اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے گفتگو کی پروفیسر ژان الہان کیزِلہان سے، جو کئی برسوں سے کثیرالثقافتی نفسیات، مہاجرت اور اسلام پر تحقیق کر رہے ہیں۔ پروفیسر ژان الہان کیزِلہان کا کہنا ہے کہ اسلام کی بقا کے لیے سوچوں اور رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔
ڈی ڈبلیو: حالیہ برسوں میں مسلم شدت پسندی دنیا بھر کے عوام اور میڈیا کا مرکز رہی ہے۔ پرتشدد شدت پسندوں میں نوجوانوں کی تعداد عمر رسیدہ افراد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ نوجوان زیادہ جلدی شدت پسندی کی جانب مائل ہوتے ہیں؟ اور آپ کی نگاہ میں نوجوانوں کا مستقبل اور عالمی سطح پر ان کا مقام کیا ہے؟
پروفیسر کیزِلہان: نوجوانوں اور بچوں کو آسانی سے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ وہ شناخت اور کئی دیگر حوالوں سے سیکھنے اور سمجھنے کی عمر میں ہوتے ہیں۔ خود سے ایک سوال پوچھیے، ’’میرا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘ ’’میں کون ہوں‘‘، ’’میرا مذہب کیا کہتا ہے‘‘۔ اور اگر یہ عناصر اقتصادی مسائل سے جڑے ہوں، یعنی اقتصادی حالت اچھی نہ ہو، تعلیم کم ہو اور ملک میں تشدد ہو، جمہوریت نہ ہو اور استحصال زیادہ ہو، یا کرپشن کا بازار گرم ہو تو بچے اور نوجوان ان مسائل کا حل اپنے تیئں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی برادری یا خود وہ غریب اور کم زور ہیں۔ ایسے میں شدت پسند تنظیمیں ان تک پہنچتی ہیں اور ان سے مضبوطی کے وعدے کرتی ہیں، انہیں شناخت دینے کا وعدہ کرتی ہیں اور وعدہ کرتی ہیں کہ ان کا استحصال کرنے والوں سے لڑائی لڑی جائے گی یا باہر سے آنے والوں کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو نوجوانوں کو لبھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ بہت سی دہشت گرد تنظیمیں اسلامی ضوابط کو استعمال کر کے کام کرتی ہیں، وہ قرآن سے مذہبی مواد نکالتے ہیں، اس طرح تاثر یہ قائم ہوتا ہے کہ دہشت گردی اسلام کے نام پر ہوئی ہے، حالاں کہ اس مواد کا اصل تناظر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ دوسری طرف مغربی دنیا میں اسلام کے حوالے سے منفی پیغام پہنچتا ہے اور وہاں سمجھا جاتا ہے کہ شاید اسلام کوئی بری چیز ہے اور وہ تشدد کی وجہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ دہشت گرد تنظیمیں اور اس میں شامل یہ نوجوان اسلام کی تضحیک کا باعث بنتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو: شدت پسندی اور تشدد کو کہاں تک روکا جا سکتا ہے؟ کیا شدت پسندی اور تشدد کی روک تھام کے لیے کوئی پروگرامز بھی جاری ہیں؟
پروفیسر کیزِلہان: دیکھیے روک تھام کی تدبیر کا مطلب ہے کہ ان نوجوانوں تک پہنچا جائے، انہیں مطلع کیا جائے، انہیں تشدد اور دہشت کا متبادل دیا جائے، میرے خیال میں چاہے بات افغانستان کی ہو یا کسی بھی دوسرے مسلم ملک کی، ان سے تعلق رکھنے والے خاندان قدامت پسند ہوتے ہیں اور عمومی طور پر پرامن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں مگر یہ اقدار دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے کم زور ہوئی ہیں۔ میری رائے میں ہر جگہ ایسے پروجیکٹ شروع ہونا چاہیں، جن سے نوجوانوں کو نتھی کیا جائے، ان نوجوانوں کو تربیت دی جائے، انہیں تشدد اور تشدد کے انسداد کی معلومات پہنچائی جائیں۔ اس طرح انہیں بتایا جائے کہ وہ عدم تشدد کی اقدار اپنی اگلی نسل میں منتقل کریں، اس طرح رفتہ رفتہ حالات بہتری کی جانب جا سکتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو: بدقسمتی سے مختلف مسلم معاشروں میں اسلامی احکامات اور مقامی روایتیں اس طرح مل چکیں ہیں کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہے۔ خصوصاﹰ جب معاملہ تشدد کا ہو، مثلاﹰ کسی خاتون پر غیرت کے نام پر تشدد۔ اس کے خاتمے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟
پروفیسر کیزِلہان: آپ کو ’غیرت‘ اور ’غیرت کے نام پر‘ جیسی اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلا ﹰ کسی خاتون کو اس لیے قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ معاشرتی اقدار کی پابندی نہیں کر رہی۔ اس معاملے کا اسلام سے براہ راست تعلق نہیں۔ یورپ سمیت کئی خطوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات ہوتے ہیں۔ خواتین پر تشدد کی وجہ پدرسری سوچ ہے۔ مسلم ممالک میں تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اسے بھی ’اسلامی‘ سمجھ لیا جاتا ہے۔ عام افراد کی تعلیم کم ہوتی ہے اور وہ خود قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی بجائے مقامی آئمہ پر انحصار کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے ایک آلے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مسلم معاشروں میں پدرسری رویے نہایت مضبوط بھی ہیں۔ کئی مسلم ممالک میں خواتین کو تعلیم تک رسائی نہیں اور نہ ہی آزادی حاصل ہے۔ حتیٰ کہ انہیں برابر کا انسان تک نہیں سمجھا جاتا۔ یہ اصل مسئلہ ہے۔ ہم چوں کہ مغربی دنیا میں بیٹھے ہیں، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ اسلام کو خواتین کی آزادی اور برابری سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب مسلم ممالک میں کوئی ان معاملات پر بولنے کی ہمت نہیں کر سکتا، کیوں کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ ایسی صورت میں ان کے خلاف تشدد کا استعمال ہو سکتا ہے۔
انٹرویو: سیف اللہ ابراہیم خیل، مہمان: پروفیسر ڈاکٹر ژان اِلہان کیزِلہان، ع ت