دہشت گردوں کی جرمن شہریت ختم کرنے کی تجویز
21 اپریل 2016جرمن سیاسی جماعت سی ڈی یو (کرسچین ڈیموکریٹک یونین) کے داخلی امور کے ماہرین کی مرکزی کمیٹی نے پیٹر بوئتھ کی قیادت میں تیرہ اپریل کو جس دستاویز کی منظوری دی، اُسے ’اسلامی انتہا پسندی اور سلفی اسلام کے خلاف کوششیں‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس دستاویز کے مطابق ریاست کو ایسے افراد کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہیے، جو ’انسانی وقار کے منافی نظریے یا کسی دہشت گرد تنظیم کی حمایت‘ کرتے ہوں۔
یہ بحث نئی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے حامیوں کے پاسپورٹ اور شہریت منسوخ کرنے کی تجویز پر وفاق اور صوبوں کے وزرائے داخلہ نے گزشتہ سال بھی تبادلہٴ خیال کیا تھا۔ تازہ مطالبے کے پس منظر میں جرمنی میں دہشت گردانہ حملوں کے بڑھتے ہوئے امکان پر پائی جانے والی تشویش کارفرما ہے۔ جرمنی میں ایسے انتہا پسند مسلمانوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے، جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جنگ میں شامل ہونے کے لیے جرمنی سے عراق اور شام کے سفر پر جا رہے ہیں۔ آئینی تحفظ کے محکموں کے پاس ایسے تقریباً سات سو کیسز کی تفصیلات ہیں اور سی ڈی یُو کی آئینی ترمیم کی تجویز کا مقصد ملک کو انہی دہشت گردوں سے بچانا ہے۔ 2011ء اور 2015ء کے درمیانی عرصے میں دہری شہریت کے حامل 164 مبینہ ’جہادیوں‘ کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں۔ شہریت سے متعلق قانون میں ترمیم اس امر کی ضمانت فراہم کرے گی کہ ایسے انتہا پسند واپس جرمنی نہیں آ سکیں گے۔
اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کسی جرائم پیشہ یا دہشت گرد تنظیم کے لیے ہمدردی کی وکالت کرنے کو بھی قابلِ تعزیر گردانا جانا چاہیے۔ بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے ’انضمام‘ سے متعلق پروگرام کے ڈائریکٹر اُلرِش کوبر کے خیال میں انتہا پسندوں کی شہریت کی منسوخی کا مطلب یہ ہو گا کہ ریاست گویا اُن ذمے داریوں سے پہلو تہی کر رہی ہے، جو ایک شہری کی جانب سے اُس پر عائد ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ خاص طور پر ایسے افراد کے سلسلے میں زیادہ پیچیدہ ثابت ہو سکتا ہے، جو جرمنی میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے ہیں اور جن کا اپنے والدین کے آبائی ملک سے بہت کم واسطہ یا تعلق ہے۔
حال ہی میں فرانس میں ایسی ہی کوششیں حکومتی صفوں میں ہونے والے احتجاج کے بعد ناکام ہو چکی ہیں بلکہ وہاں تو ایسی تجاویز کی مخالفت کرنے والی خاتون وزیر انصاف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا جرمن آئین میں بھی ایسی کسی ترمیم کی کوشش کامیاب ہو سکے گی۔