1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Folgeschäden

3 مئی 2011

صرف 11 ستمبر سن 2001 کو کيے جانے والے دہشت گردانہ حملوں ہی سے 60 ارب امريکی ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ ليکن دہشت گردی سے ہونے والے مجموعی نقصانات کا صحيح حساب لگانا ممکن نہيں ہے۔

https://p.dw.com/p/1184e
11 ستمبر کی دہشتگردی سے ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ مرنے والوں کی ياد منانے کے ليے گراؤنڈ زيرو پر جمع
11 ستمبر کی دہشتگردی سے ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ مرنے والوں کی ياد منانے کے ليے گراؤنڈ زيرو پر جمعتصویر: AP

اسامہ بن لادن کی موت کے بعد اسٹاک ايکسچينج ميں شيئرز کی قيمتوں ميں تيزی سے اضافہ ہوا ہے اور تيل کی قيمت کم ہوگئی ہے۔ يہ دہشت گرد تنظيم القاعدہ کے خلاف جنگ ميں جزوی کاميابيوں کے مختر مد تی اقتصادی نتائج ہيں۔ ليکن اسلام کے نام پر جو عالمی دہشت گردی برسوں سے جاری ہے اس کے حقيقی اور مجموعی اقتصادی نقصانات بہت زيادہ ہيں۔

اقتصادی تحقيق کے جرمن انسٹيٹيوٹ DIW کے عالمی اقتصاديات کے شعبے کے سربراہ ٹلمن نے کہا: ’’دہشت گردی کے تمام مالی اور اقتصادی نقصانات کا صحيح اظہار کسی ايک عدد سے نہيں کيا جا سکتا۔‘‘ ليکن ايک عمومی اندازہ يا تخمينہ ضرور لگايا جا سکتا ہے اور وہ ايک بہت بڑا دھچکہ ہے: بہت سے مبصرين کا خيال ہے کہ دہشت گردی کے ہاتھوں ہر مغربی صنعتی ملک کو کئی سو ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ان مبصرين کے مطابق ان بھاری اخراجات کی ابتدا اسامہ بن لادن کی ہدايات پر ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی تباہی سے ہوئی تھی۔

اُس وقت مرکزی بينکوں نے عالمی اقتصادی کساد بازاری کو روکنے کے ليے ايک اجتماعی کارروائی کے تحت عالمی مالی منڈيوں کو کثير رقوم فراہم کی تھيں۔ خاص طور پر امريکی مرکزی بينک کے اُس وقت کے سربراہ ايلن گرين اسپين نے بينکوں کو بہت فراخدلی سے سرمايہ فراہم کيا تھا۔

ايلن گرين اسپين
ايلن گرين اسپينتصویر: AP

کيونکہ يہ طريقہء کار کامياب ہوتا نظر آيا، اس ليے گرين اسپين نے سرمائے کی تھيلی کھلی رکھی يہاں تک کہ بينک يہ سمجھنے سے قاصر ہوگئے کہ وہ اس سرمائے کا کيا کريں۔ اس کے بعد ہی بينکوں کو يہ ترکيب سجھائی دی کہ کيوں نہ ان رقوم کو، مکانات کی خريد کے ليے بطور قرض، کم آمدنی والے امريکيوں کے سرڈال ديا جائے۔

اس کے نتائج سب ہی جانتے ہيں: پہلے تو امريکہ ميں مکانات اور جائيداد اور اُن کے ليے ديے جانے والے قرضوں کا بحران پيدا ہوا اور پھر پوری دنيا مالی بحران کی لپيٹ ميں آ گئی جس سے عالمی اقتصادی کساد بازاری پيدا ہوئی۔

اس بحران پر قابو پانے کے ليے مغربی ممالک کی حکومتوں کو بينکوں کو ديواليہ ہونے سے بچانے اور معيشت ميں سرگرمی پيدا کرنے کے ليے بہت کثير رقوم فراہم کرنا پڑيں۔ اس طرح اسے 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کا نتيجہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

جرمن اسٹاک ايکسچينج،نيونارک اسٹاک ايکسچينج، ايک علامتی تصوير
جرمن اسٹاک ايکسچينج،نيونارک اسٹاک ايکسچينج، ايک علامتی تصويرتصویر: picture alliance/dpa/landov/DW Fotomontage

دہشت گردی کے خطرے سے بچنے کی تدابير پر دنيا بھر کے ممالک کو بھاری اخرجات برداشت کرنا پڑے ہيں۔ ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور تمام حساس تنصيبات پر نگرانی کے انتظامات بہت سخت بنا ديے گئے ہيں۔ ان اخراجات کا مجموعی اندازہ لگانا ممکن نہيں ہے۔ ليکن بسا اوقات ايک فريق کے اخراجات دوسرے کے ليے منافع بھی بن جاتے ہيں۔ چنانچہ سکيورٹی کی نجی فرموں اور اليکٹرانک نگرانی کے آلات بنانے والی فرموں کی آمدنی ميں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح اقتصادی کارکردگی بڑھی ہے اور رياست کو ٹيکسوں سے ہونے والی آمدنی ميں بھی اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ: رولف وينکل/ شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں