دہشت گردی سے دنیا محفوظ؟
11 ستمبر 2008امریکہ میں بھی اس واقعےکے متاثرہ اور ہلاک شدگان کو فراموش نہیں کیا گیا ہے۔ سلامتی کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنانے کی سوچ کی قیمت انفرادی آزادیوں میں کمی کی شکل میں دینا بڑی۔ بعض دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں بھی امریکہ دوسرے ملکوں کے لئے ایک مثال ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ضروری اقدامات کی حد کہاں ختم ہوتی ہےاور کہاں حد سے بڑھ کر اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس کا تعلق عوام کی جاسوسی، نگرانی کے انتظامات اور فضائی سفر میں جانچ پڑتال سے ہے۔ قیدیوں سے سلوک کے بارے میں نہ تو ابوغریب جیل اور نہ ہی گوانتاناموبےمیں امریکیوں نےانسانی حقوق کااحترام کرتے ہوئے دوسروں کے لئے کوئی اچھی مثال قائم کی۔
اس کے باوجود عالمی برادری نے امریکہ کے دباؤپر بھی منظم دہشت گردی کی روک تھام کے لئے خاصی کوششیں کیں ۔ جس کا آغاز افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ سے ہوا۔اس دوران خفیہ اداروں کے ماہرین کا خیال ہے کہ گیارہ ستمبر جیسا حملہ دوبارہ اس وقت دوبارہ نہیں ہو سکتاکیونکہ القاعدہ کے بنیادی ڈھانچے پر ضرب لگانے میں کامیابیاں ہوئی ہیں۔
اور اس پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔دہشت گردوں کو اپنے تازہ دم ہونے کے مقامات مثلاﹰ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں بہت محدود حد تک ہی کاروائی کا موقعہ مل پار رہا ہے۔
لیبیا جیسے ممالک نے اس دوران کھل کر دہشت گردی سے تعلق توڑ لیا ہے اور یمن، شام یا سعودی عرب جیسے ملکوں میں بھی دہشت گردتنظیموں کے ٹھکانوں اور انہیں مالی امداد مہیا کرنے کے ذرائع کو کم از کم عبوری مدت کے لئے ختم کر دیا گیا ہے۔
لیکن ناکامیوں بھی ہوئی ہیں۔ افغانستان میں ایک لمبے عرصے سے طالبان دوبارہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں اور ملک کے شمالی علاقے میں بھی کاروائیاں کر رہے ہیں جو اب تک نسبتا پر امن سمجھا جاتا تھا۔ الجزائر القاعدہ کی ایک شاخ نے خصوصا رمضان میں خونیں حملوں سے اپنی موجودگی کا اظہار کیا ہے۔ روس اور چین میں دہشت گردی کے خلافچ جنگ کے حوالے سے نسلی کشیدگیوں کے مقابلے میں بے رحمی سے فوجی قوت کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاقہ سلامتی کے ماہرین کا خیال ہے کہ دہشت گردوں کی ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ کبھی بھی اتنی آسان نہ تھی جتنی کہ آج ہے۔ اس کی وجہ سابق سویت یونین کا بقیہ ایٹمی اسلحہ اور شمالی کوریا جیسے ممالک کی جانب سے ایٹمی نو ہاؤیا یورینیم کی پیشکش ہے۔
عمومی مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں عوام کے بڑے طبقون میں غربت بھی ان کے بعج شہریوں کو دہشت گردی کی آغوش میں دھکیل رہی ہے۔ اس لئے پاکستان اور افغانستان جیسے ملکوں میں سماجی حالات بہتر بنا کر ہی مغرب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پائدار فتح حاصل کر سکتا ہے۔