دہشت گردی سے نمٹنا آسان نہیں، جرمن صدر
1 اگست 2016سابق مشرقی جرمنی میں پروان چڑھنے والے جرمن صدر یوآخم گاؤک نے اپنے ان خیالات کا اظہار اتوار کو جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ منعقدہ ایک یادگاری تقریب میں کیا۔ اس تقریب کا مقصد میونخ دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت اور اُن کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت کرنا تھا۔
اس موقع پر سابق پادری گاؤک کا کہنا تھا، ’’اس کرہ ارض پر کہیں بھی ایسے سیاستدان نہیں پائے جاتے، جو اپنے عوام کو دہشت گردانہ حملوں سے مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دے سکیں۔‘‘
جرمن صدر کے بقول دہشت گردوں، بدخوئی سے کام لینے والوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا مقابلہ بہترین اور ممکنہ طریقے سے اسی وقت کیا جا سکتا ہے، جب قومی یکجہتی کا اظہار کیا جائے اور حکومت اور سول سوسائٹی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلے۔
میونخ میں ہونے والے اس دہشت گردانہ واقعے میں ایک ایرانی نژاد نوجوان ملوث تھا جس نے شہر کے اولمپیا شاپنگ مال میں جمعہ بائیس جولائی کو فائرنگ کر کے 9 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
18 تا 26 جولائی کے درمیان ہونے والے پانچ مختلف دہشت گردانہ حملوں میں سے دو کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ ان حملوں میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ جرمنی اور اس کے ہمسایہ ملک فرانس میں پے در پے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے جرمن چانسلر میرکل کے ناقدین کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ جرمنی کافی حد تک ایسے حملوں کا عادی ہو گیا ہے۔
جرمن چانسلر میرکل کے مخالفین ان تمام حملوں کا ذمہ دار اُن کی مہاجرین کے بارے میں اختیار کردہ پالیسی کو ٹھہرا رہے ہیں۔ میرکل کی مہاجرین کے لیے فراخ دلانہ پالیسی کے نتیجے میں ایک ملین سے زیادہ مہاجرین گزشتہ برس جرمنی آئے، جن میں افغانستان، شام اورعراق کے باشندوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔
اتوار کو میونخ میں ہونے والی یادگاری تقریب میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی شریک تھیں۔ اس موقع پر انہوں نے دہشت گردانہ حملوں کے سدباب کے لیے ایک 9 نکاتی منصوبہ بھی پیش کیا۔
اس میں مہاجرین کی انتہا پسندی کے سلسلے میں ایک انتباہی نظام کی تشکیل بھی شامل ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی مہاجر دوست پالیسی کو تبدیل نہیں کریں گی۔
جرمن صدر نے اس امر کا اقرار کیا کہ جرمنی میں اکثریتی عوام دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے کافی شکوک و شبہات اور تحفظات کا شکار ہو گئے ہیں اور وہ یہ محسوس بھی کر سکتے ہیں کہ ایسا کیونکر ہوا ہے تاہم انہوں نے کہا ہے جرمنی حملہ آوروں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔