دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جرمنی میں آباد مسلمان
30 اگست 2006جرمنی میں جولائی کے آخر میں دو ریل گاڑیوں پر دہشت گردانہ حملوںکی کوشش ناکام بنائے جانے کے بعد سے ، تقریباً 82.5 ملین کی آبادی والے اِس ملک میں رہنے والے تین ملین سے زائد مسلمانوں میں، جن کا مجموعی آبادی میں تناسب 3.7 فیصد بنتا ہے، یہ احساس کافی زیادہ ہو گیا ہے کہ ایک معاشرتی اور مذہبی اقلیت کے طور پر اُن کو بالعموم شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔
دوسری طرف مسلمانوں اور تارکین وطن کی ملکی سطح کی تنظیمیں یہ وضاحتیں کرنے پر مجبور نظر آتی ہیں کہ جرمنی میں آباد مسلمان، امن پسند شہری ہیں جو مذہب کے نام پر دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جرمن معاشرے میں اکثریتی آبادی، اپنے ساتھ رہنے والے مقامی یا غیر ملکی نسل کے مسلمانوںکے بارے میں کیا سوچتی ہے؟
جولائی کے آخری دنوں میں جرمنی دوبڑے دہشت گردانہ حملوںسے محض اس لیئے بال بال بچ گیا کہ دو سوٹ کیسوں میں بند جو بم، دو مختلف ریل گاڑیوں میں رکھے گئے تھے وہ کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے نہ پھٹے ۔ ان حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے اگر اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جاتے تو جرمنی بھی برطانیہ اور اسپین کی طرح ان یورپی ملکوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا جہاں امریکہ پرگیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد سے، دہشت گردی کے واقعات سینکڑوں بے گناہ افرادکے ہلاک اور زخمی ہونے کا باعث بن چکے ہیں۔
اتفاقاً ناکام رہنے والے ان حملوں کے سلسلے میں اب تک چار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔ وہ چاروں لبنانی شہری ہیںجو مسلمان بھی ہیں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران یورپی ذرائع ابلاغ میںنظر آنے والی ایسی رپورٹوں میں بھی واضح اضافہ ہو چکا ہے کہ یورپی مسلمانوں میں مذہب پسندی ، اور مذہب پسندی کے مذہبی انتہا پسندی میں تبدیل ہونے کا رحجان بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ یورپی مسلمانوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اکثر وہ جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس میں اپنے انضمام کی کوشش نہیں کرتے اوراسی تناظر میں مسلمان تارکین وطن کے گھرانوں میں عزت یا غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بھی کوئی انہونی بات نہیں ہیں۔
یورپی یونین کے رکن ملکوں میں آباد مسلمانوں، خاص کرحالیہ واقعات کے بعد جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں کو شکائت یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان، اپنی غلط سوچ کی وجہ سے ، ذاتی طور پر کوئی پرتشدد کارروائی یا کوئی دہشت گردانہ حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ اسلام دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے ، یا سارے ہی مسلمان دہشت گرد ہیں۔ ایسے کامیاب یا ناکام حملوں میں چونکہ ہمیشہ ہی مسلمانوں کا نام آتا ہے، لہٰذا یورپی حکومتیں اور سیاستدان یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ ان کے اپنے ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کی تنظیمیں مذہب کے نام پر ، یا مذہب کی آڑ میںکئے جانے والے ایسے خونریز اقدامات کی بھر پور مذمت کریں۔ یہ سب کچھ مذہب، معاشرے، سما جی انضمام اوریورپی مسلمانوں کے عمومی طرز زندگی سے متعلق ایک ایسی طویل بحث کا حصہ بھی ہے جو چند سال پہلے شروع ہو ئی تھی اور ابھی تک جاری ہے۔
جرمنی میں پر امن زندگی گذارنے والے اور ملکی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے والے تین ملین سے زائد مسلمانوں کی اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ انہیں بیک وقت مذمت بھی کرنا پڑ رہی ہے اور وضاحت بھی۔ مذمت ایسے انتہا پسندعناصر کی جو اپنے نظریات کو اسلامی سوچ کا نام دے کردہشت گردی کرتے ہیں، اور اکثریتی آبادی سے مخاطب ہوتے ہوئے وضاحت اس بات کی کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی یہ سوچا جانا چاہیے کہ سارے مسلمان انتہا پسند ہیں۔
ان حالات میں جرمنی میں عام مسلمانوں کا رد عمل کیا ہے؟ یہاں بون میں رہنے والے عرب نسل کے ایک جرمن مسلمان شہری کا کہنا ہے:
"پیدائشی طور پر میرا تعلق لبنان سے ہے۔ میں کئی سال سے جرمنی میں رہ رہا ہوں۔ میں جرمن شہری ہوں اور جرمنی میرا وطن ہے۔ لیکن ایسے واقعات ہمیں بھی متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ریل گاڑیوں میں بم رکھنے والے چاروں مبینہ ملزم لبنانی ہیں، اس کے یقینی طور پر جرمنی میں عرب یا لبنانی نسل کے تمام افراد کی زندگی پر اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم ان دہشت گردانہ حملوں کے خلاف ہیںجو معصوم انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔ میں ایسے تمام حملوں کی مذمت کرتا ہوں ، چاہے وہ جرمنی میں کیئے جائیں، لبنان میں، یا کسی اور ملک میں!"
گذشتہ تین عشروں سے جرمنی میں رہائش پذیرعرب نسل کا یہ باشندہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایسے حملے کیوں کئے جاتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ جرمنی نے لبنان میں خانہ جنگی کے دوران لبنانی شہریوں کی مدد کی تھی اور بہت سے لبنانی باشندوں کوتو جرمنی میں پناہ بھی دی گئی تھی۔
"میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگ یہاں سماجی انضمام کے خواہش مند نہیں ہیں۔ وہ جرمنی آتو گئے مگر یہاں کی زبان نہیں سیکھنا چاہتے۔ وہ تقریباً ایک بند معاشرے میں رہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جرمنی میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی پرورش بھی غلط کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ جرمنوں کا مذہب مختلف ہے اوران بچوں کو جرمنوں کی طرح نہیں ہوناچاہیے ۔ لیکن جب جرمنوں نے ہماری مدد کی تھی تو انہوں نے تو ہمیں یہ نہیں پوچھا تھا کہ تمہارا مذہب کون سا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم مسلمان ہو، لہٰذاہم تمہاری مدد نہیں کریں گے ۔ انہوں نے صرف انسانی بنیادوں پر ہماری مد دکی تھی۔"
تقریباً یہی سوچ لبنان سے تعلق رکھنے والے اس عرب مسلمان کی بھی ہے جو بون کے قریب Bad Godesberg کے علاقے میں ایک لبنانی ریستوراں کا مالک ہے۔ عرب نسل کا فہد نامی یہ باشندہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک طویل عرصے سے جرمنی میں مقیم ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسے جرمنوں کے ساتھ رہتے ہوئے کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
"ایک لبنانی شہری اگر جرمنی آکر یہاں دہشت گردانہ حملے کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا نقصان ہم تمام لبنانیوں کو پہنچے گا۔ جرمنوں کا لبنان میںحالیہ جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے حملوں سے یہاں پر امن طور پر رہنے والے عربوں کا تشخص بری طرح مجروح ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کبھی کبھی عام جرمن شہری عربوں سے بیزاری بھی محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً میرے چند گاہک آئندہ یقینی طور پر میرے ریستوراں پراس لئے نہیں آئیں گے کہ انہیں دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ ہے۔ یہ بات میرے لیئے باعث شرم ہے کہ چند عربوں نے خود کو دہشت گرد ثابت کردیا ہے۔ ان حالات میں ، میں کیا کرسکتا ہوں؟ میں اپنے گاہکوں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ گفتگو میں، ان حملوں کے حق میں دلیلیں پیش کرنے کی بجائے، ایسے مسائل کا پس منظر واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بہت سے یورپی باشندوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ اکثر عرب ملکوں میں کیاہو رہا ہے۔"
فہد کے ریستوراں سے کچھ ہی دور Bad Godesberg ہی میں عربوںکا ایک ایسا کیفے بھی ہے جہاں ہروقت گاہکوں کا ہجوم دیکھنے میں آتا ہے۔ وہاں آنے والے عرب نسل کے گاہک چائے پیتے ہیں، حقہ پیتے ہیں اور روزمرہ کی زندگی کے بارے میں تبادلہ¿ خیال کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ان عرب انتہا پسندوں کے بارے میں اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں جو جرمنی میں آبادعرب نسل کے شہریوں کے مجموعی تشخص کو تباہ کررہے ہیں۔ اس چائے خانے میں باقاعدگی سے آنے والے ایک گاہک علی کا کہنا ہے:
"میں جرمنوں کے مﺅقف کو سمجھ سکتا ہوں۔ بات غیر ملکیوں کو دبانے کی نہیں ہے ، جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ ہے، ہم قوانین کا احترام نہیں کرتے۔ ہم غیر منظم ہیں اور خود کو اپنے ہی ماحول میں بند کر لیتے ہیں۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جرمنی میں غیر ملکیوں کو بہت سے حقوق حاصل ہیں۔ سماجی حقوق، ہیلتھ انشورنس اور بے روزگاری الاﺅنس بھی۔ لیکن لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے گھر میں آکر توڑ پھوڑ شروع کردے تو آپ کیا کریں گے؟ جن کا یہ ملک ہے ، انہیں اس کی حفاظت کا حق بھی حاصل ہے۔"
اس بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان حالات میں جرمن حکومت اور سیاستدان کیا کہتے ہیں؟ وفاقی وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلے نے ریل گاڑیوں پر ناکام حملوں کے مبینہ ملزمان کی گرفتاری کے بعد جرمنی میں آباد مسلمانوں سے جو اپیل کی وہ بہت واضح تھی۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں مسلمانوں کو کھل کر کہنا چاہیے کہ وہ دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کے لیئے معاشرے میں الگ تھلگ ہو کررہ جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
اس پر جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سیکریٹری جنرل Aiman Mayzekنے کہا کہ وزیرداخلہ کامطالبہ قطعی غیر ضروری ہے۔ " ہم نے میڈرڈ اور لندن میں بم دھماکوں کے بعد بھی واضح طور پر کہا تھا کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی یا کوئی اور جرم کیا ہی نہیں جا سکتا۔ جرم صرف جرم ہوتا ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی بات ہم آج بھی دوہراتے ہیں۔"
برلن میں ترک نسل کی مقامی آبادی کے ایک رہنما کینان کولات کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو بھی ہر موقع پر یہ وضاحت نہیں کرتے رہنا چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ یہ تو ایک لازمی سی بات ہے اور اسے بار بار دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عام جرمن شہریوں سے تو ایسی وضاحتوں کے مطالبے نہیں کئے جاتے۔
جولائی کے مہینے میں دہشت گردانہ حملوں کی ناکامی کے بعد سے اکثر مسلمان یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان پربحیثیت مجموعی شک کیا جانے لگا ہے۔ ایک لبنانی نژادجرمن باشندے نے ملکی ٹیلی ویژن چینل ARD کو بتایا: "سارا اخبار لبنانیوں کے بارے میں رپورٹوں سے بھرپڑا ہے اور یہ کوئی قابل فخر بات نہیں ہے۔"
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں اورآبادی کے اکثریتی حصے کے مابین ابلاغ زیادہ تر میڈیا کے ذریعے ہوتا ہے۔ جرمنی میں لبنانی نسل کے باشندوں کی سب سے بڑی تعداد جس علاقے میں رہتی ہے وہ وفاقی دارلحکومت برلن کا علاقہ Neukölln ہے اور وہاں بھی جرمنوں اور تارکین وطن پر مشتمل سماجی گروپ ایک دوسرے کے لئے زیادہ تر اجنبی ہیں۔ Neukölln کے بلدیاتی سربراہ ہائنس بُش کَوفسکی کہتے ہیں: "اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تارکین وطن اپنی زندگی کاایک بڑا حصہ اپنے گھروں کے اندر گذارتے ہیں۔ ان کا رہن سہن کیسا ہے۔ وہ جب اپنے چائے خانوں میں حقہ پیتے ہوئے بحث کرتے ہیں تو وہ بحث کیسی ہوتی ہے، یا پھر جمعے کی نماز کے وقت وہ جب مسجدوں میں جاتے ہیں تو اپنا وقت کیسے گذارتے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کا ان تارکین وطن کے اردگرداکثریتی معاشرے کے زیادہ تر افراد کو علم نہیں ہوتا۔"
داخلی سیاسی امور کے ماہر جرمن سیاستدانوں کا اندازہ ہے کہ جرمنی میں پر تشدد مذہبی سوچ رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد صرف 2000 اور 3000 کے درمیان ہے۔ لیکن یہ بہت چھوٹی سی اقلیت ان مسلمانوں کی ساکھ اور سماجی ماحول کے لئے تباہ کن اثرات کا باعث بن رہی ہے جن کی تعداد 3.3 ملین کے قریب ہے۔ اس بارے میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سیکریٹری جنرل Aiman Mayzekکہتے ہیں: "ہم جرمن معاشرے کی طرف سے خود کو ملنے والے ایسے اشاروں کی کمی کو محسوس کرتے ہیں جن میں کہا گیا ہو کہ مسلمان آبادی بھی اس معاشرے کا حصہ ہے اور ہمیںاس مسئلے کو مل کر حل کرنا ہے۔ ہمیں سماجی طور پر الگ تھلگ ہوجانے کے خلاف تنبیہات سنائی دیتی ہیں، پابندیوں کی دھمکیوں کی آوازیں آتی ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ملکی سلامتی سے متعلقہ قوانین کو مزید سخت بنا دیا جائے گا۔ پھر دوبارہ خاموشی چھا جاتی ہے۔ "
اس تناظر میں اگلے ماہ وفاقی وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلے جرمنی میں مسلمانوں کے نمائندوں سے ملنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ اس ملاقات میں ان کی کوشش ہو گی کہ مسلمانوں کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ اسلام جرمن معاشرے کا بھی ایک لازمی حصہ ہے اورمسلمانوں کو یورپی آبادی کے ایک اہم حصے کے طور پر بھی قبول کیا جا چکا ہے۔ اس ملاقات کے لئے مسلمانوں کی ہراس تنظیم کو کھلی دعوت دی گئی ہے جو یہ تسلیم کرتی ہے کہ جرمنی میں ریاستی امن کی بنیاد صرف جرمنی کا بنیادی آئین ہی ہو سکتا ہے، نہ کہ اسلامی شرعی قوانین۔ وولف گانگ شوئبلے اس ملاقات میں زیادہ تر مسلمانوں کے جرمن ریاست کے ساتھ تعلقات اور مسلمان بچوں کے لئے دینی تعلیم کے مو ضوع پر مکالمت کرنا چاہتے ہیں، لیکن مسلمانوں کی اکثر تنظیموں کوخطرہ ہے کہ اس بات چیت کا مرکز بھی سلامتی سے متعلقہ امور ہی ہوں گے۔