دہشت گردی کے کیس میں شامی شہریوں پر جرمنی میں مقدمہ
19 جنوری 2021جرمن وفاقی پراسکیوٹر جنرل نے پیر کے روز کہا کہ جن دو شامی شہریوں پر دہشت گرد تنظیم سے روابط کا الزام ہے۔ ان کے خلاف عدالتی کارروائی جرمنی میں چلائی جائے گی۔ جرمن حکام کو شبہ ہے کہ سن 2012 میں ایک شامی فوجی افسر کے قتل میں یہی دونوں افراد ملوث تھے۔
ان میں سے ایک شخص پر القاعدہ سے وابستہ شدت پسند تنظیم النصرہ فرنٹ سے تعلق رکھنے کا الزام ہے جبکہ دوسرے پر ایک شدت پسند تنظیم کی حمایت کرنے کا الزام ہے۔ جرمن حکام نے ان دونوں کو 2020 میں مشرقی جرمنی کے شہر نیورمبرگ اور مغربی شہر ایسین سے گرفتار کیا تھا۔
جرمن استغاثہ کا کہنا ہے کہ جب متاثرہ فوجی افسر کو قتل کے لیے لے جایا گیا تو ملزمین میں سے ایک کی نگرانی میں انہیں قتل گاہ تک پہنچایا گیا جب کہ دوسرے ملزم نے قتل کرنے کے واقعے کے منظر کا ویڈیو بنایا اور پھر النصرہ فرنٹ کے پروپیگنڈہ کے لیے اسے شائع کیا تھا۔
انصاف کے لیے جرمنی کی کوشش
جرمنی میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین نے، اپنے ملک میں جن جنگی جرائم کا مشاہدہ کیا، اس کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ جرمن حکام نے ایسے درجنوں کیسز کی تفتیش بھی کی ہے۔
گزشتہ برس اپریل میں جرمنی نے شام کے ایک انٹیلی جنس افسر پر جنگی جرائم کے لیے مقدمہ شروع کیا تھا اور اس طرح یورپی یونین کے رکن ملک کی حیثیت سے شام میں جنگی جرائم کے خلاف بیرونی ملک میں مقدمہ چلانے والا جرمنی پہلا ملک بن گیا۔
سن 2002 میں پہلی بار جرمنی نے جرمن قانون میں ان جنگی جرائم کو بھی شامل کر لیا تھا جس سے عالمی برادری متاثر ہوتی ہو۔ اس کے تحت چاہے ایسے جرائم سے جرمن شہری متاثر نہ ہوتے ہوں یا پھر جرم جرمن سرزمین پر سرزد نہ ہوا ہو، تب بھی اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
شام میں سن دو ہزار گیارہ میں اس وقت جنگ کا آغاز ہوا، جب صدر بشار الاسد نے حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی گرفتاری کا عمل شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ لڑائی ایک خطرناک اور خونی خانہ جنگی میں تبدیل ہوتی گئی جس میں ترکی، روس، امریکا اور ایران جیسے ممالک بھی اپنے اپنے دھڑوں کی حمایت میں لگ گئے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے)