دہشت گردی کےخلاف عزم بہت مضبوط ہے، ترک حکومت
1 جنوری 2017ترک وزیر داخلہ سلمان سوئلو نے کہا کہ استنبول حملے میں ہلاک ہونے والے انتالیس افراد میں سولہ غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہتر افراد زیر علاج ہیں، جن میں چار کی حالت نازک ہے۔ خاندانی امور کی ترک وزیر فاطمہ بتول کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے غیر ملکیوں میں سعودی عرب، مراکش، لبنان اور لیبیا کے علاوہ ایک اسرائیلی خاتون شہری بھی شامل ہیں۔ دریں اثناء نائٹ کلب حملے میں ہلاک ہونے والے ایک ترک شہری کی نماز جنازہ استنبول میں ادا کی گئی۔
ترکی میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو پڑوسی ملک شام میں جاری جنگ اور اندرون ملک کرد علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے۔ استنبول میں قائم الشرق فورم نامی تھنک ٹینک سے وابستہ تجزیہ کارغالب دالے کا کہنا ہے کہ ترکی شام کے ساتھ واقع اپنی سرحدوں کو دہشتگردوں کی آماجگاہ بننے سے روکنا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ داعش کے خلاف بین الاقوامی جنگ کا ایک اہم حصہ ہے۔
غالب دالے کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال سے ترکی کے اندر دہشت گردا نہ حملوں میں تیزی آئی ہے اور اس طرح کے مزید حملوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’خفیہ معلومات اکھٹی کرنے والے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے حملوں کا قبل از وقت پتہ چلانے اور ان کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔" انہوں نے کہا کہ ترکی کو اب اس طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے استنبول میں سکیورٹی سے متعلق ایک اعلی سطٰحی اجلاس کی صدارت بھی کی۔ بن علی یلدرم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترک حکام نے اس حملے سے متعلق تحقیقات شروع کر رکھی ہیں لیکن ان کے بقول ابھی تک یہ وا ضح نہیں ہو سکا کہ اس حملے کا ذمہ دار کون ہے۔ بن علی یلدرم نے کہا کہ تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں لیکن حکام ٹھوس نتائج کے لیے کام کر رہے ہیں،’’ ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات جاری ہیں اور معلومات سامنے آنے پر انہیں عام کیا جائے گا۔‘‘
ترک وزیراعظم کا مزید کہنا تھا،’’میں نے ایسی کہانیاں سنی ہیں کہ حملہ آور سانتا کلاز کا بہروپ دھارے ہوا تھا۔ یہ درست نہیں ہے حملہ آور نے کلب میں داخل ہونے سے پہلے دو لوگوں کو گولی ماری اور اس کے بعد اندر موجود لوگوں پر گولیاں برسائیں۔ حملہ آورکا ہتھیار بھی جائے واردات سے مل گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ترکی کا دہشت گردی کےخلاف عزم مضبوط ہے۔ ان کے بقول بد قسمتی سے دہشت گردی سے بہت سے ملک متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر جرمنی اور فرانس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی مثالیں دیں۔
استنبول میں اس حملے کے بعد حکام نے باسفورس پل کے یورپی حصے کی جانب واقع علاقے اورتا کوئے میں سکیورٹی مزید سخت کر دی ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے، جہاں دہشت گردانہ حملہ کا نشانہ بننے والے رائنا کلب کے علاوہ دیگر کئی نائٹ کلبس اور مقامی و غیرملکی سیاحوں کے پسندیدہ ہوٹل، ریسٹورنٹ اور پارک واقع ہیں۔
پولیس نے حملہ آور کی تلاش میں استنبول شہر کی بیشکتاش ضلع میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔ ان چھاپوں میں پولیس کی خصوصی سروس کے اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ بیشکتاش میں ہی دس دسمبر کو ایک فٹبال سٹیڈیم کے باہر دو دھماکوں میں چوالیس افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں زیادہ تعداد پولیس اہلکاروں کی تھی۔ خیال رہے کہ استنبول میں سال نو کے موقع پر دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر ہائی الرٹ تھا اور شہر میں تقریباً 17 ہزار پولیس اہلکار تعینات تھے۔