دہلی: فسادات کے بعد مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلا دیے گئے
20 اپریل 2022بھارتی دارالحکومت دہلی میں بدھ کی صبح اچانک مسلم اکثریتی علاقے جہانگیر پوری میں پولیس فورسز کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) نے توڑ پھوڑ کی کارروائی شروع کر دی اور آنا فانا مقامی جامع مسجد کی دیوار اور دروازوں سمیت آس پاس کی بہت سی دکانوں کو بھی مسمار کر دیا۔
چند روز قبل اسی علاقے میں مسلم مخالف فسادات ہوئے تھے، جس میں جھڑپوں کے دوران متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ہی حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما نے اس علاقے میں کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایم سی ڈی سے کہا تھا کہ وہ فسادات میں ملوث افراد کی املاک کو تباہ کر دے۔
عدالتی حکم کے باوجود کارروائی جاری
دہلی میونسپل کارپوریشن نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاروائی غیر قانونی تجاوزات کے خلاف شروع کی گئی تھی اور کسی کے حکم پر ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔ تاہم مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سلسلے میں پہلے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور صبح توڑ پھوڑ شروع ہونے کے بعد انہیں اس کا علم ہوا۔
جہانگیر پوری میں ہندوؤں کی بھی آبادی ہے، تاہم توڑ پھوڑ جامع مسجد کے علاقے میں کی گئی اور اس کی زد میں بیشتر مسلمانوں کی املاک آئی ہیں۔ کارروائی شروع ہوتے ہی مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ سے کارروائی روکنے کے لیے رجوع کیا۔
عدالت نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے فوری طور پر اسے روکنے کا حکم دیا، تاہم حکام کے مطابق انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا ہے اور انہوں نے توڑ پھوڑ کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔ چند گھنٹے بعد جب عدالت کا حکم جہانگیر پوری میں کارروائی کرنے والے حکام تک پہنچایا گیا تب عمارتیں ڈھانے کا عمل روک دیا گیا۔
سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والی تنظیم جمعیت علماء ہند کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہو رہا، اور اس بہانے سے املاک ڈھانے کا عمل جاری ہے کہ انہیں ہدایات کا انتظار ہے۔‘‘
بی جے پی حکومتوں کی مسلمانوں کے خلاف نئی حکمت عملی
ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی زیرِ اقتدار ریاستوں میں حکام نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس نئی پالیسی پر عمل شروع کر رکھا ہے، جس کے تحت فساد برپا کرنے والوں کے مکانات کو مسمار کرنا ہے۔ اس کی ابتدا ریاست یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ان مسلمان مظاہرین کے خلاف کی تھی، جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد کسی تفتیش یا عدالتی کارروائی کے بغیر ہی مقامی انتظامیہ مسلمانوں کو مورد الزام ٹھرا کر ان کے املاک تباہ کر رہی ہے ماہرین کے مطابق جمہوری طرز حکومت میں اس طرح کی سزا غیر قانونی اور انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ لیکن سخت گیر اور قوم پرست ہندو اس کی ستائش کرتے ہیں۔
یو پی کے بعد سے بی جی پی والی ریاستوں میں متعدد بار مسلمانوں کے خلاف یہ کارروائی کی جا چکی ہے۔ جب بھی کوئی فساد ہوتا ہے، تو سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے، تاہم اس کی ذمہ داری بھی انہیں پر عائد کی جاتی ہے اور پھر انہیں کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے۔
چند روز قبل ہی کی بات ہے ریاست مدھیہ پردیش میں رام نومی کے جلوس کے دوران تصادم کے واقعات کے بعد کھرگون کی ضلعی انتظامیہ نے شہر کے پانچ علاقوں میں مکانوں اور دکانوں کو مسمار کرنے کی مہم شروع کی تھی۔
یہ تمام مکانات اور دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔ وہاں کے کم از کم 45 مکانوں اور دکانوں کو مسمار کیا جاچکا ہے، جن میں 16 مکانات اور 29 دکانیں شامل ہیں۔ کئی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی کے باوجود ریاستی حکومت نے اس کارروائی کو درست ٹھہرایا ہے۔
دہلی میں فسادات ہونے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے اسی طرز پر دہلی میں بھی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے دوسرے روز ہی حکام بلڈوزر کے ساتھ جہانگیر پوری پہنچ گئے۔
بھارت کے مختلف علاقوں میں ہندو مسلم تناؤ اب بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، جس پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر دارالحکومت دہلی میں ان واقعات کا ہونا کافی تشویش ناک ہے، جہاں فروری 2020ء میں بھی فسادات کے دوران 50 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ جس میں سے بیشتر مسلمان تھے۔
دہلی میں ہونے والے 2020 کے مسلم مخالف فسادات کے بعد بھی دہلی پولیس نے زیادہ تر واقعات میں مسلمانوں کے خلاف ہی کارروائی کی تھی، جن میں سے بہت سے اب بھی جیلوں میں قید ہیں۔
جہانگیر پوری کیس میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ہندو رہنماؤں کے خلاف کیس بغیر اجازت کے جلوس نکالنے کا درج کیا گيا ہے جبکہ مسلم برادری کے خلاف سخت قوانین کے تحت فساد بھڑکانے کے مقدمات درج کر کے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔