دہلی کے فسادات میں بچ جانے والے افراد اب بھی خوف زدہ
بھارتی دارالحکومت میں رواں برس فروری میں پُرتشدد ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔ اِن فسادات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔
عارضی سکون
نئی دہلی کے ایک مقام عیدگاہ میں انتظامیہ نے ایک بڑا عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ اِسی کیمپ میں کھلے آسمان تلے ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ ایسا اِمکان ہے کہ بے گھر ہونے والے افراد رواں برس عید الفطر کی نماز بھی یہیں ادا کریں گے۔ اِس کیمپ میں قریب ایک ہزار لوگ عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔
زخم ابھی تازہ ہیں
ایسا نہیں لگتا کہ فسادات میں جانی و مالی نقصان برداشت کرنے والے افراد اپنے غم کو بھول پائیں گے۔ کیمپوں میں رہنے والے اِنسانوں کو خوف کی صورتِ حال اور اپنے دُکھ درد سے نجات بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دہلی پولیس کے مطابق فسادات میں ترپن افراد ہلاک ہِوئے تھے، جن میں بیشتر مسلمان تھے۔
خواتین کی سلامتی کا معاملہ
عید گاہ کا کیمپ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصے میں مرد اور دوسرے حصے میں خواتین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اِس تقسیم کی وجہ خواتین کا تحفظ ہے۔ کیمپ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ فسادات کے صدمے سے شاید ہی نہیں نکل سکیں گے۔
بچے مختلف مستقبل کو دیکھتے ہوئے
فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بچے شدید خوف کی حالت میں ہیں۔ اِن فسادات کے دوران کئی اسکولوں کو بھی آگ لگائی گئی تھی۔ کیمپ میں بعض بچے اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اُن کے ذہن خوف کی لپیٹ میں ہیں۔
اِمدادی عمل جاری
کیمپ میں مقیم افراد کو انتظامی اِداروں اور غیر حکومتی تنظیموں کی جانب سے قانونی اور مختلف معاملات بشمول صحت کی اِمداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کیمپ کے مکینوں کی عمومی صحت چیک اپ کرنے کے علاوہ اُنہیں ادویات بھی فراہم کرنے کا سِلسِلہ جاری رکھے ہُوئے ہیں۔
اُمید ابھی زندہ ہے
تمام تر جسمانی تکالیف اور ذہنی صدمات کے باوجود کیمپ کے رہائشی یہ امید رکھتے ہیں کہ اچھ دن لوٹیں گے۔ وہ پھر سے اپنے پرانے علاقوں میں واپس جا کر دوست احباب کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں گے۔