دی ہیگ: پاکستان کے خلاف جوہری پھیلاؤ سے متعلق مقدمہ خارج
5 اکتوبر 2016دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کے سولہ ججوں پر مشتمل بینچ کی اکثریت کا فیصلہ یہ تھا کہ مارشل آئی لینڈز کی جانب سے جوہری ہتھیار رکھنے والے ان تینوں ممالک کے ساتھ پہلے سے موجود کسی قسم کے تنازعے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ نہ ہی اِس نے کبھی ان ممالک سے اس معاملے پر مذاکرات کے ذریعے کبھی بات کرنے کی کوشش کی ہے۔
سن انیس سو چھیالیس اور انیس سو اٹھاون کے درمیانی عرصے میں امریکا نے ان جزائر پر کئی جوہری تجربات کیے تھے۔ اس کے بعد سے دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز ہوا تھا۔ سن دو ہزار چودہ میں ماجورو حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ انیس سو اڑسٹھ میں نافذ کی گئی ’نان پرولفریشن ٹریٹی‘ کے باوجود جوہری طاقتیں جوہری عدم پھلاؤ کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔
برطانیہ این پی ٹی پر دستخط کر چکا ہے مگر بھارت اور پاکستان نے اس معاہدے کو اب تک تسلیم نہیں کیا۔ رواں برس مارچ میں مقدمے کی سماعت کے دوران مارشل آئی لینڈز نے دی ہیگ میں واقع اقوام متحدہ کے ٹریبیونل کے سامنے جوہری دھماکوں کی ہولناک اور بھیانک تصویر پیش کی تھی۔ انیس سو پچاس کے عشرے میں اس کے بعض جزائر پر امریکا کی جانب سے کیے گئے ایٹمی تجربوں نے زبردست تباہی مچائی تھی۔ ٹونی دے بروم نامی وکیل کا عدالت کے سامنے میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرے ملک کے بہت سے جزیرے (جوہری دھماکوں) کے سبب پگھل گئے تھے اور کئی جزائر پر ہزار سال تک کوئی جان دار آباد نہیں ہو سکتا۔‘‘
دے بروم نے اس موقع پر یکم مارچ انیس سو چوّن کو ’کاسِل براوو‘ نامی جوہری تجربے کو یاد کیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ ’’میں نے دیکھا کہ آسمان خون نما سرخ ہو گیا تھا۔‘‘
یہ تصویر کشی امریکا کی جانب سے کیے گئے ہائڈروجن بم کے تجربے کی تھی۔ یہ بم انیس سو پینتالیس میں ہیروشیما پر کیے گئے دھماکے سے ایک ہزار گنا طاقت ور تھا۔
دے بروم کا مزید کہنا تھا، ’’بے شمار لوگ مارے گئے تھے، اور نومولود بچے نقائص کے ساتھ پیدا ہونے لگے۔ مارشل آئی لینڈز دیگر ممالک، بشمول اسرائیل کو بھی اس مقدمے میں داخل کرنا چاہتا ہے، حالاں کہ اسرائیل نے کبھی جوہری ہتھیار رکھنے کا سرکاری طور پر دعویٰ نہیں کیا۔