ذوالفقار مرزا کے تہلکہ خیز انٹرویو کے بعد پی پی پی میں سناٹا
12 فروری 2015نجی ٹی وی چینل کو ٹیلی فون پر دیے گئے اس انٹرویو میں ذوالفقار مرزا نے پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ ذوالفقار مرزا نے ایک طرف بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کے اختلافات کی تصدیق کی اور ساتھ ہی اختلافات کی وجوہات بھی بیان کر ڈالیں۔
ذوالفقار مرزا کہتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ سندھ میں الٹ ہو گیا ہے، انور مجید نامی کشمیری نے ان کے عزیز دوست آصف علی زرداری کو نہ جانے کون سی گیدڑ سنگھی دے رکھی ہے، جس کے باعث زرداری صاحب کو پچاس سال کی دوستی یاد رہی اور نہ اپنا اکلوتا بیٹا۔ اور تو اور مرزا صاحب کہتے ہیں کہ سندھ میں روز سرکاری عہدیدار بے نظیر کا خون لاکھ، دو لاکھ اور پانچ لاکھ میں فروخت کر رہےہیں۔
حیران کن طور پر ذولفقار مرزا کے انکشافات اور الزامات کو توقع کے برخلاف اتنی میڈیا کوریج نہ مل سکی جتنا کہ پہلے ذوالفقار مرزا کو ملتی تھی۔ سابق وزیر داخلہ کی ایم کیو ایم سے مخاصمت نئی نہیں۔ ماضی میں ایم کیوایم کے خلاف تند و تیز بیانات اور ایم کیوایم سے اپنے اختلافات کی بناء پر وزارت اور پارٹی عہدے سے ہاتھ دھونے والے ذوالفقار مرزا نے کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم کو تنہا کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ لیاری گینگ وار خصوصاً عزیر بلوچ کی سربراہی میں لیاری امن کمیٹی کی کھلے عام سرپرستی اور ساڑھے تین لاکھ اسلحہ لائسنسوں کا اجراء کراچی والے ابھی بھولے نہیں تاہم موجودہ سایسی منظرنامے میں پیپلز پارٹی نے ذوالفقار مرزا کی پارٹی سے علیحدگی کے بعد خود کو لیاری پیپلز امن کمیٹی سے عملاً لاتعلق کیا اور عزیر بلوچ کی گرفتاری کے لیے پیش رفت کی ہے اور کراچی پولیس کی ٹیم دبئی میں گرفتار عزیر بلوچ کی حوالگی کے لیے وہاں موجود ہے۔ لیکن فی الحال پولیس کو عزیر تک رسائی نہیں ملی ہے، جسے زرداری صاحب اور دبئی حکام کے قریبی تعلقات کا نتیجہ تصور کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایم کیوایم ایک بار پھر ماضی کی تلخیاں بھلا کر پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کی سیاست کی راہیں تلاش کر رہی ہے۔
ذوالفقار مرزا نے تازہ ترین انٹرویو میں سندھ حکومت کو ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلانے اور سیاسی مفادات کی بجائے مالی مفادات کو حاصل کرنے کا الزام عائدکیا ہے۔ وہ بدین میں شوگر ملز کے معاملات پر بہت زیادہ ناراض نظر آئے، جس کی واضح وجہ مرزا صاحب کا اِس شوگر مل سے وابستہ ہونا ہے۔ واضح رہے کہ ان کا کاروبار آج کل گھاٹے میں ہے۔ ذوالفقار مرزا نے بحریہ ٹاون کے سربراہ ملک ریاض کو آصف علی زرداری کا بزنس پارٹنر قراردیتے ہوئے کڑی تنقید کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ محترمہ بے نظیربھٹو نے غریبوں کے لیے جان دی تھی جبکہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کو غریب کا کوئی احساس نہیں، ’موجودہ پیپلزپارٹی لکھ پتی کو کروڑ پتی اور کروڑ پتی کو ارب پتی بنانے میں لگی ہوئی ہے‘۔
ذوالفقار مرزانے الزام عائد کیا کہ ’سابق صدر کی ہمشیرہ فریال تالپور کا ملازم نوکریاں ٹیلی فون پر فروخت کرتا ہے، رہنماؤں کے نوکرحکومت چلا رہے ہیں، کیا پولیس، کیا تعلیم، کیا صحت اور کیا خوراک، کون سا محکمہ ہے، جو لٹیروں سے بچا ہوا ہے‘۔
ذوالفقار مرزا پہلے آصف علی زرداری کو اپنا لیڈر کہتے تھے تاہم اب ان سے لاتعلقی کا اظہارکرتے ہوئے بلاول بھٹو کو اپنا لیڈر کہتے ہیں۔ اپنے انٹرویو میں اُنہوں نے آصف علی زرداری اور بلاول کے اختلافات کو بھی موضوع بحث بناتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو آصف علی زرداری کی سیاسی روش سے نالاں ہیں، ’ڈیلی ویجز والے سیاست دان نہیں چاہتے ہیں کہ بلاول بھٹوکا پیپپلز پارٹی میں کوئی کردار ہو، بلاول بھٹو کو سندھ حکومت کی گورننس سے اختلاف تھا‘۔
ذوالفقار مرزاکاکہنا تھا کہ ’کوئی بھی شخص آصف زرداری کو اتنا نہیں جانتا، جتنا میں ان کو اور وہ مجھ کو جانتے ہیں، آصف زرداری کو ہر اچھی چیز کا مالک بننے کا شوق ہے، وہ ہوس گیری میں مبتلا ہو گئے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’محترمہ پارٹی کے کرپٹ لوگوں کو کھینچ کر رکھتی تھی، زرداری دورمیں جوجتنی زیادہ کرپشن کرتا ہے، اس کو اتنی ہی زیادہ تھپکی دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اور زیادہ تیزی سے کرپشن کرو‘۔
سیاسی حلقوں میں اس بارے میں پہلے بھی قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں کہ ملکی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری کا کردار محدود کیا جانا مقصود ہے، اسی لیے بے نظیربھٹو کیس کی تفتیش اور موجودہ اسپیکرسندھ اسمبلی آغا سراج درانی سمیت کیس کے اہم گواہوں کے لیے بھی آنے والا وقت اہمیت اختیارکرگیا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عزیربلوچ کی پاکستان حوالگی کے بعد بے نظیربھٹو کے چیف سکیورٹی آفیسر خالد شہنشاہ اور دیگر اہم شخصیات کے قاتلوں کی نشاندہی اور قتل کے محرکات سامنے لائے جا سکتے ہیں۔