ذیابطیس کا مرض، ایک عالمگیر وبا
4 اپریل 2010اس رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد چین میں ہے۔ اس ایشیائی ملک میں 92 ملین سے زائد انسان یعنی چین کی بالغ آبادی کا تقریباً 10 فیصد ذیابیطس کا شکار ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذیابیطس کا مرض ایک عالمگیر وبا بنتا جا رہا ہے اور اس کے خلاف موثر اقدامات ناگزیر ہو گئے ہیں۔
چین کی نیشنل ڈائبیٹیس اینڈ میٹابولک ڈس اوڈرس اسٹڈی گروپ کی طرف سے منظر عام پر آنے والی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ دراصل چینی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کی دوسری قوموں کے لئے بھی تشویش کا باعث ہے۔ اس سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ جسے کبھی مغربی معاشروں کا خاصہ سمجھا جاتا ہے، اب سرحدی حدود کو توڑتے ہوئے تمام دنیا کے انسانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سال 2006 ء کی ذیابیطس سے متعلق قرارداد سے یہ پتا چلا تھا کہ دنیا کی کل بالغ آبادی کا 6 فیصد ذیابیطس کے مہلک مرض میں مبتلا ہے۔ اس قرارداد سے یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ ذیابیطس کا مرض ہی دنیا بھر میں ہونے والی اموات، انسانوں کی معذوری، اقتصادی ترقی میں رکاوٹ اور اخراجات کی سب سے بڑی وجہ بن رہا ہے۔ بہت سے ماہرین کا ماننا ہے کہ ذیابیطس اکیسویں صدی کی سنگین ترین عالمگیر وبا ثابت ہوگا۔ جرمنی کی ذیابیطس فاؤنڈیشن سے منسلک پروفیسر ریوڈیگر لانڈگراف کے مطابق ایشیائی ممالک کو ذیابیطس کے عارضے سے سب سے زیادہ نقصانات پہنچیں گے۔
: ’’یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ آئندہ 20 سالوں کے اندر ایشیائی ممالک میں ذیابیطس کی شرح میں 60 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
ذیایطس کی سب سے زیادہ عام قسم Diabetes2 ہے۔ ماضی میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ Diabetes2 زیادہ تر عمر رسیدہ افراد میں پایا جاتا ہے، تاہم اب ذیابیطس کی یہ قسم نوجوانوں اور کم عمر افراد میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی Standford University اسکول آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والے ایک سائنسداں کنگ لی ایشیائی ممالک میں ذیابیطس کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے کی وجوہات کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’ایشیائی نژاد امریکی باشندوں میں سے تقریباً 10 فیصد Diabetes2 میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد بنتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ لائف اسٹائل اور جینیات ہے۔ ایشیائی باشندوں کے مابین جینیاتی تعامل نہایت پیچیدہ ہوتا ہے اور ان کے روز مرہ کے عادات و اطوار بھی کوکیشیائی باشندوں کے مقابلے میں غیر صحت مند ہوتے ہیں۔‘‘
کنگ لی اس کی ایک بڑی وجہ ایشیائی معاشروں میں ’فاسٹ فوڈ‘ کلچر کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو بھی سمجھتے ہیں۔
’’حالیہ سالوں کے اندر چین میں نمایاں اقتصادی ترقی ہوئی ہے اور چینی عوام مغربی فاسٹ فوڈ جیسے کہ مک ڈونلڈ، کینٹیکی فرائڈ چکن وغیرہ خرید نے کی مالی صلاحیت کے حامل ہو گئے ہیں۔‘‘
چینی ماہر کنگ لی کے ان مفروضات سے جرمن پروفیسر ریوڈیگر لانڈگراف اتفاق کرتے ہیں۔’’چینیوں نے مغربی طرز کی غذائی ثقافت کی تقلید شروع کر دی ہے۔ مغربی طرز کے کھانے کھانا اور مشروبات پینے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ امریکہ میں بہت سے لوگ کوکا کولا کو اس ملک کا قومی مشروب سمجھتے ہیں اور اب یہ سوچ دنیا کے بہت سے دوسرے معاشروں میں بھی فروغ پا چکی ہے۔ لوگ میٹھی چیزوں سے زیادہ رغبت رکھنے لگے ہیں۔‘‘
جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ شوگر یا شکر سے بھرپور مشروبات اور بہت زیادہ کیلوریز والی غذا دراصل ذیابیطس کی وجہ بنتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسانی جسم میں ’ انسولین‘ کی پیداوار اور اس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ تاہم پروفیسر اس کی اور وجوہات بھی بیان کرتے ہیں۔
’’ایک بہت بڑی وجہ انسانوں کی روز بروز کم ہوتی ہوئی جسمانی حرکت اور ورزش بھی ہے۔ زیادہ تر معاشروں میں لوگ موٹر گاڑیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے جسم میں پہنچنے والی کیلوریز کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے یا کم از کم اس کی مقدار پہلے جتنی ہی ہے تاہم اسے جلانے کے لئے ان کی جسمانی حرکت پہلے کے مقابلے میں بہت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘
پروفیسر لانڈگراف کا کہنا ہے کہ اکثر انسانوں میں ’جینیٹک فیکٹرز ‘ یا جینیاتی عناصر ذیابیطس کا بعث بنتے ہیں کیونکہ ان کا میٹابولک فنکشن ناقص ہو جاتا ہے، جو آخر کار ذیابیطس پرمنتج ہوتا ہے۔ زیادہ کھانا از خود ایک بیماری ہے۔ جرمن ماہر کے بقول اس کی اہم ترین وجوہات مایوسی، محرومی، بورییت، احساس تنہائی اور بہت سے دیگر سماجی مسائل ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ واقعی بھوکے ہوتے ہیں بلکہ وہ بہت سی ان چیزوں کی کمی غذا سے پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا آج کے دور میں معاشرے میں فقدان پایا جاتا ہے۔
چین کی نیشنل ڈائبیٹیس اینڈ میٹا بولک ڈس اوڈرس اسٹڈی گروپ کی تازہ ترین رپورٹ نے ایسے افراد کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافے سے خبر دار کیا ہے، جو ابھی تک ذیابیطس کے مرض میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں تاہم ان میں اس مرض کے امکانات مستقبل قریب میں پائے جانے کے آثار گہرے نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا کے چند ممالک میں ذیابیطس کے مریضوں میں سے 90 فیصد تک مناسب علاج سے محروم ہیں۔
رپورٹ : کشورمصطفیٰ
ادارت : عاطف توقیر