راسموسن پاکستان میں: افغانستان سے انخلاء وقت پر
21 جولائی 2010بدھ کے روز اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے نیٹو سیکریٹری جنرل نے کہا: ’’ہمارا مقصد افغان سرزمین پر دیرپا امن و استحکام قائم کرنا ہے۔ صرف انخلاء کےوقت کا تعین کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہم چا ہتے ہیں کہ سن 2014 تک تمام ذمہ داریاں افغان حکومت کو سونپ دی جائیں۔‘‘ راسموسن نے پاک افغان راہداری تجارت کے معاہدے کو خطے کے لئے ایک اہم پیشرفت قرار دیا۔
مغربی دفاعی اتحاد کے سیکریٹری جنرل راسموسن کا اپنا موجودہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔
آندرس فوگ راسموسن نے کہا کہ پاکستان خطے کا ایک انتہائی اہم ملک ہےاور نیٹو اتحاد پاکستان کے ساتھ اپنے سیاسی اور دفاعی تعلقات کا فروع چاہتا ہے۔ راسموسن کے بقول اس مقصد کے لئے پاکستان اور نیٹو کے مابین سیاسی اور فوجی تعاون سے متعلق نئے فریم ورک کی تجویز بھی پیش کر دی گئی ہے۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان سرزمین پر مفاہمتی عمل کے لئے اپنے طور پر رضاکارانہ خدمات فراہم نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر افغان حکو مت چاہے تو اسلام آباد کی طرف سے مدد کی جا سکتی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ کابل کانفرنس کے نتائج سے مطمئن ہیں اور پاکستان اور افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کےمعاہدے پرآگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک سوال کےجواب میں پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کافی عرصے سے جاری ہے۔
اگر واہگہ کے راستے تجارت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو تمام امور معمولی نوعیت کے ہیں جنہیں، قریشی کے بقول، جلد حل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ واہگہ بارڈر کے راستے افغانستان تک بھارتی برآمدات کا ہے، جس کی قطعی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے اسامہ بن لادن اور طالبان قیادت کے پاکستان میں موجود ہونےسے متعلق دئے گئے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پہلے بھی کئی بار اس طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہیں لیکن اگر امریکہ اس بارے میں کو ئی ثبوت مہیا کرے تو پاکستان ضرور کارروائی کرے گا۔
دریں اثناء نیٹو سیکریٹری جنرل راسموسن نے اسلام آباد میں صدرآصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ملکی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں، جن میں خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: مقبول ملک