رام مندر کے لیے’صدیوں کا انتظار ختم ہوا‘ : نریندر مودی
5 اگست 2020وزیر اعظم مودی نے آ ج کے دن کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کا موازنہ بھارت کی آزادی کی تحریک سے کیا اور کہا کہ جس طرح آزادی کی تحریک میں لوگوں نے قربانیاں دیں اسی طرح رام مندر کے لیے بے شمار لوگوں نے صدیوں تک جد و جہد کی اورآج کا دن اسی 'عزم اور قربانی کا مظہر ہے۔‘
ایودھیا میں متنازع مقام پر ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد 175منتخب شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ کروڑوں بھارتی شہریوں کو یہ یقین نہیں ہورہا ہوگا کہ یہ دن آگیا ہے۔ پورا ملک رام کی لہر میں ڈوبا ہوا ہے اور آج پوری دنیا میں رام کا نام گونج رہا ہے۔
مودی نے اس موقع پر چاندی کی ایک اینٹ علامتی طورپر بنیاد میں رکھی۔ یہ مندر کا'گربھ گرہ‘ یعنی سب سے مقدس حصہ ہوگا۔ انہوں نے ’شری رام مندر‘ پر ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجراء بھی کیا۔ اس موقع پر ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی موجود تھے۔
خیال رہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد۔ رام جنم بھومی کا تنازعہ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ ہندو اور مسلمان دونوں ہی اس کی ملکیت کے دعویدار تھے۔ گزشتہ سال سپریم کورٹ نے یہ مقام ہندووں کو اور مسلمانوں کو شہر میں کسی دوسری جگہ پر مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین دے کر اس تنازع کو ختم کردیا تھا۔ تاہم عدالت کے اس عجیب و غریب فیصلے پر ماہرین قانون نے حیرت اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔
منافرت کی خلیج
بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعے کی وجہ سے ملک میں درجنوں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے اپنا سیاسی ایجنڈا بنایا اور اس کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا۔ لیکن اس کی وجہ سے ملک میں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت کی ایک ایسی خلیج پیدا ہوگئی جسے دور کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
وزیر اعظم مودی کا لہجہ تاہم آج نسبتاً نرم دکھائی دیا۔ انہوں نے کہا ”ہمیں سبھی کے جذبات کا خیال رکھنا ہے۔ ہمیں ملک کے سبھی طبقوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ سبھی کا اعتماد حاصل کرنا ہے تبھی ملک آگے بڑھ سکے گا۔" انھوں نے کہا کہ ’رام سب کے ہیں، رام سب میں ہیں۔‘ انھوں نے رام کو ملک کی تہذیب کی روح اور بہترین انسانی اقدار کا محور قرار دیا اور کہا کہ وہ ملک کے اتحاد کے ضامن ہیں۔
ہندووں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام اسی جگہ پیدا ہوئے تھے جہاں پہلے بابری مسجد تھی۔ ان کا دعوی کے کہ یہاں پہلے مندر تھا جسے مغل بادشاہ بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے منہدم کر کے سولہویں صدی میں مسجد تعمیر کرادی۔ اس مسجد میں ایک عرصے تک نمازیں ہوتی رہیں لیکن 1949میں وہاں مبینہ طورپر رام کی ایک مورتی رکھ دی گئی۔ جس کے بعد نمازوں پر پابندی عائد کردی گئی اور ایک طویل عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا۔ جو گزشتہ برس اپنے اختتام کو پہنچا۔
’مسجد تھی اور مسجد رہے گی‘
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کل بھی مسجد تھی، آج بھی مسجد ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی مسجد رہے گی۔ مسجد میں مورتیاں رکھ دینے سے،پوجا پاٹ شروع کر دینے سے یا ایک طویل عرصے تک نماز پر روک لگا دینے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہو جاتی۔
بورڈ نے کہا کہ 'آیا صوفیہ ہمارے لیے ایک بڑی مثال ہے۔ اس (بابری مسجد کی) زمین کا قبضہ لینا نا انصافی، جارحانہ اور شرمناک عمل ہے اور اکثریت کے فیصلے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ حالات سدا ایک سے نہیں رہتے‘۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی کا کہنا تھا ”رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے ہندوتوا عناصر کی پوری تحریک ظلم، جبر، دھونس، دھاندلی، کذب اور افتراء پر مبنی تحریک تھی۔ یہ سراسر ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔"
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے ”بابری مسجد تھی، ہے اور رہے گی۔ انشاء اللہ۔" اس کے ساتھ ہی انھوں نے بابری مسجد اور بابری مسجد کے انہدام کی ایک ایک تصویر بھی شیئر کی ہے۔
آئینی لحاظ سے نامناسب
مودی کے ذریعہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے پر بعض سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عہدے پر فائز ایک شخص کو کسی مخصوص مذہب کی تقریب میں اس طرح حصہ لینا درست نہیں ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنے ردعمل میں کہا 'ریاست کو مذہب سے الگ رکھنے والے آئین کی روح کا خیال کریں۔ جب بھارت کا آئین واضح کرتا ہے کہ مذہب اور سیاست کو ملانا نہیں چاہیے تو بھارت کے وزیراعظم کیوں ایک مندر کی بھومی پوجا کی تقریب سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ 'بھگوان رام محبت اور انصاف کی علامت ہیں وہ نفرت اور ناانصافی کے عمل میں ظاہر نہیں ہو سکتے۔‘
شدت پسند ہندو تنظیم اور رام مندرکے لیے تحریک میں اہم رول ادا کرنے والی جماعت وشو ہندو پریشد نے ملک بھرکے ہندووں سے آج چراغاں کرنے کی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف کسی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔