رسم و رواج کے نام پر خواتین سے انسانیت سوز سلوک
6 فروری 2009اس غیر انسانی رواج کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کر رہی ہیں۔ ہر سال چھ فروری کا دن، بچیوں کے ساتھ ان کے جسم کے انہی نازک اعضاء کے حوالے سے کی جانے والی زیادتیوں کےخلاف منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی یہ رسم ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ میڈیکل سائنس میں اسے Female Genital Mutilation کہتے ہیں۔
عالمی ادارہ برائے صحت WHO کے ایک محتاط اندازے کے مطابق بر اعظم افریقہ کے 28 ممالک میں سالانہ 30 لاکھ بچیوں کے جنسی اعضاء کوکاٹا جاتا ہے ۔ مغربی افریقی ملک سینیگال سے لے کر افریقہ کے مشرقی ساحلی علاقوں میں صومالیہ تک، اور شمال میں مصر سے لے کر جنوب میں تنزانیہ تک بچیوں کے جنسی اعضاء کو کہیں رواج ، کہیں ثقافت اور کہیں غلط طور پر مذہب کا نام لے کر کاٹا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق آج تک کئی ملین خواتین اس کرب سے اس طرح گذر چکی ہیں کہ وہ اس کے خلاف اپنے ہی تحفظ کے لئے کچھ بھی نہ کر سکیں۔
کہا جاتا ہے کہ تقریباً دو ہزار سال پہلے براعظم افریقہ کے چھوٹے چھوٹے قبائل میں بچیوں کے جنسی اعضاء کی اس جبری قطع برید کا یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔
افریقی ملک مالی کے شمال میں سونگھو نامی ایک گاؤں کے رہنے والے مالی یانوگے کی اپنی تین بیٹیاں بھی اس ظالمانہ روایت کا نشانہ بن چکی ہیں۔ یانوگے اس روایت کا تحفظ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہاں، یہاں یہ آپریشن ایک عام سی بات ہے۔ ایک اچھی مسلمان لڑکی کے لیے یہ ضروری ہے۔ اگر کسی لڑکی کا آپریشن نہیں کیا جائے گا تو اس سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔ ویسے بھی اس میں کوئی خطرے کی بات نہیں ہے۔‘‘
بچیوں کے نازک جسمانی اعضاء کو کاٹنے کے لیے آپریشن کے نام پر جو ظالمانہ کارروائی کی جاتی ہے وہ کوئی ماہر ڈاکٹر یا کوئی سرجن نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے کسی بھی دائی یا دیہاتی علاقوں کی کسی خاتون جراح کی خدمات لی جاتی ہیں۔ انتہائی تشویش کی بات تو یہ ہے کہ اس عمل کے دوران سرجری کے کوئی محفوظ آلات استعمال نہیں کئے جاتے بلکہ گھروں میں عام طور پر دستیاب کوئی بھی تیز دھار شے استعمال کی جاتی ہے۔
اس دوران چھوٹی عمر کی بچیوں کو نہ تو بے ہوشی کی کوئی دوا پلائی جاتی ہے اور نہ ہی زخمی حالت میں انہیں infection یا دیگر طبی پیچیدگیوں سے بچانے کے لئے کوئی اقدامات کئے جاتے ہیں۔
زیادہ تر صرف افریقہ یا افریقہ سے باہر رہنے والے افریقی باشندوں میں پائے جانے والے اس رواج کے ساتھ چند مفروضات بھی جڑے ہوئے ہی۔ مثلاﹰ چند افریقی ملکوں میں آباد قبائل میں یہ کہا جاتا ہے کہ بچیوں کی بہترین صحت اور پاکیزگی کے لیے یہ آپریشن ضروری ہوتا ہےلیکن اس رواج کے خلاف جدوجہد کرنے والی تنظیموں کا موقف ہے کہ یہ آپریشن کسی بھی طرح بچیوں کی صحت کے لیے بہتر نہیں ہوتا بلکہ بہت سی بچیاں آپریشن کے دوران زیادہ خون بہہ جانے کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔ بہت سی لڑکیاں تو اس وجہ سے عمر بھر خوف اور صدمے کا شکار رہتی ہیں۔
طبی حوالے سے اس قابل مذمت روایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس عمل سے متاثرہ خواتین ازدواجی زندگی میں اور زچگی کے دوران بھی اضافی پیچیدگیوں کا شکار رہتی ہیں۔
فادوما کا تعلق صومالیہ سے ہے۔ وہ سات سال کی تھیں جب ان کا بھی ایسا ہی ایک آپریشن کردیا گیا۔ وہ کئی سالوں سے جرمنی کے شہر میونخ میں رہائش پذیر ہیں۔ ’’ جب سے میں نے ہوش سنبھالا مجھے یہ بتایا جاتا رہا کہ میں پاک صاف نہیں اور مجھ سے بد بو آتی ہے۔ لیکن ایک نہ ایک دن میرے لیے وہ بڑا دن آئے گا جب میں اصلی لڑکی بن جاؤں گی۔‘‘
بچیوں کے ساتھ یہ سلوک صرف افریقی ممالک میں ہی نہیں بلکہ کچھ شمالی افریقی عرب ممالک میں بھی کیا جاتا ہے۔ فرانس کے National Institute for Demographic Researchکے مطابق 10 سے 14 کروڑ خواتین اس آپریشن سے گزر چکی ہیں جن میں سے چھ ملین سے زائد مغربی ممالک میں آباد ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس رواج کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔ آج یہ عمل تقریباً 16 افریقی ممالک میں قانوناً جرم ہے جبکہ کئی دیگر ممالک، مثلاﹰ گیمبیا میں اسے ملکی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتاہے ۔ جرمنی میں، جو ہے تو مغربی یورپ کا ایک ملک مگرجہاں افریقی نژاد باشندوں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے، ایسے جرائم کے مرتکب افراد کے لئے قانوناﹰ دس سال تک کی سزا رکھی گئی ہے۔
آنا لے نا گوئٹ شے نامی ایک جرمن خاتون وکیل کہتی ہیں :’’فرانس، برطانیہ، سویڈن اور اسپین میں ڈاکٹروں کو ایسے واقعات سامنے آنے پر پولیس کو مطلع کرنا ہوتا ہے لیکن یورپی یونین کے رکن ملکوں میں سے ایسے واقعات میں باقاعدہ مقدمات آج تک صرف فرانس ہی میں منظر عام پر آئے ہیں۔‘‘
فرانس میں ڈاکٹر متاثرہ خواتین کے آپریشن کرکے ایسی خواتین کی اس طرح مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ معمول کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں اور اس علاج کا خرچ بھی سرکاری ہیلتھ انشورنس کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔ جرمنی میں حقوق نسواں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومت پر زورڈال رہی ہیں کہ افریقی نژاد جرمن لڑکیاں اگر چاہیں تو ان کے طبی معائنوں کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ ’’ ایسے واقعات کے یورپی ممالک میں منظر عام پر نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی بچی اپنے والدین کے خلاف آواز نہیں اٹھائےگی۔کئی تو اس لئے بھی کہ وہ کم عمر ہوتی ہیں۔‘‘
افریقی معاشروں میں کبھی صحت اور کبھی رواج کے نام پر کئے جانے والے اس ظلم کے خلاف آج تک کئی قانون بنائے گئے ہیں تاہم اب تک ثابت یہ ہوا ہے کہ صد یوں پرانی رسوم کے خاتمے کے لئے صرف قانون بنانا ہی کافی نہیں بلکہ ان قوانین پر کامیاب عمل درآمد کو ممکن بنانے کے لئے اجتماعی شعور کی بیداری بھی ضروری ہے۔