1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رفیق الحریری قتل تحقیقات باقاعدہ شروع

امجد علی1 مارچ 2009

ایک کار بم دھماکے میں سابق لبنانی وزیر اعظم رفیق الحریری کے قتل کے چار سال بعد یکم مارچ سے دی ہیگ کے نواح میں ’’خصوصی عدالت برائے لبنان‘‘ اپنی باقاعدہ کارروائی کا آغاز کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/H3S5
سابق لبنانی وزیر اعظم رفیق الحریری کا مجسمہتصویر: DW//Birgit Kaspar

اِس کارروائی کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ قتل کے اِس واقعے کے پیچھے کون سے عناصر کارفرما تھے۔ اقوامِ متحدہ کی اِس نئی عدالت میں گذشتہ چند برسوں کے دوران لبنان میں رونما ہونے والے سیاسی قتل کے مزید مقدمات بھی پیش ہونے کا امکان ہے۔

سن دو ہزار پانچ میں قتل ہونے والے رفیق الحریری کے کیس میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے مقرر کئے گئے پہلے خصوصی تفتیش کار جرمن دارالحکومت برلن سے تعلق رکھنے والے وکیلِ استغاثہ ڈیٹلیف میہلِس تھے۔ دو ہزار چھ تک اِس کیس کی تفتیش کرنے والے میہلِس نے حال ہی میں عربی روزنامے ’’الحیات‘‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، اُن کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح سے واضح ہے کہ یہ واردات کس نے کی لیکن یہ کہ اِس کے شواہد عدالت میں پیش کئے جانے چاہییں۔

میہلِس کے بعد اُن کی جگہ آنے والی دونوں شخصیات نے اتنے یقین سے بات کبھی نہیں کی۔ اِس مقدمے کی کارروائی کو مشکل بنانے والے عوامل میں سے ایک یقیناط یہ بھی ہے کہ حریری کے حامیوں سمیت بہت سے حلقے یہ الزام عاید کرتے ہیں کہ حریری کے قتل میں ہمسایہ ملک شام ملوث ہے بلکہ یہ قتل اُس کے کہنے پر ہوا۔

Rafiq al-Hariri libanesischer Politiker
رفقیق الحریری کا چار سال قبل ایک کار بم حملے میں ہلاک کیا گیا تھاتصویر: DW/Birgit Kaspar

شام اِس الزام کو سختی سے رد کرتا رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قتل کے اِس واقعے کے بعد شام نے لبنان سے اپنے دَستے واپس بلا لئے اور محدود ہی سہی لیکن اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون بھی کیا۔ تاہم شام کسی بین الاقوامی عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار نہیں اور مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ کسی شامی عدالت میں چلانے کی بات کرتا ہے۔ تاہم ایسے مشتبہ افراد کا ابھی تک نام نہیں لیا گیا۔ اِس کی بجائے لبنانی حکام شام سے قریبی وابستگی رکھنے والے متعدد لبنانی باشندوں کو اِس قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر چکی ہے، جن میں چار لبنانی جنرل بھی شامل ہیں۔

غالب امکان ہے کہ یہ چاروں دی ہیگ کے خصوصی ٹرائی بیونل کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ لبنانی عدلیہ آخر میں اپنا مَوقِف تبدیل کر لے، جیسا کہ اُن تین مشتبہ افراد کے سلسلے میں ہوا، جنہوں نے واردات کے وقت اُس وقت کے شامی صدر ایمیل لاہود کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی۔ تین سال تک حراست میں رکھنے کے بعد اِن تینوں کو اب بری کر دیا گیا ہے اور یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہالینڈ کی اِس عدالت کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ شامی صدر بشارالاسد نہیں چاہتے کہ اِس معاملے میں شام کیا زیادہ نام آئے۔

یہی خواہش غالباً امریکہ اور فرانس کی ہے، جو شام کو اپنی مشرقِ وُسطےٰ پالیسیوں کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ آج سے دی ہیگ کے نواح میں خصوصی عدالت اپنا کام تو شروع کر رہی ہے لیکن مقدمے کی باقاعدہ کارروائی کب شروع ہو گی، اِس بارے میں ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔