’رواں برس بھی یورپ کو گزشتہ برس جتنے مہاجرین کا سامنا ہو گا‘
15 فروری 2017یورپی بارڈر ایجنسی فرونٹکس نے یورپی یونین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ رواں برس کے دوران اُتنے ہی غیرملکی مہاجرین کی توقع کریں جتنے گزشتہ برس پہنچے تھے۔ ایجنسی نے اس تناظر میں مزید کہا کہ گزشتہ برس کے دوران لیبیا اور دوسریے افریقی ملکوں سے ایک لاکھ اکیاسی ہزار افراد غیرقانونی انداز میں یورپی ملکوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ایجنسی کے مطابق بلقان خطے کے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی ہونے کے بعد اب لیبیا سے بحیرہ روم کا راستہ مرکزیت اختیار کر گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق بحیرہ ایجیئن میں سمندری نگرانی کے بعد انسانی اسمگلروں نے بحیرہ ایڈریاٹک کو بھی اپنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ایڈریاٹک سمندری راستہ طویل اور زیادہ دشوار گزار ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک کشتی یونانی کوسٹ گارڈز نے پکڑی تھی جو بحیرہ ایڈریاٹک سے ہوتی ہوئی بحیرہ ایجین میں پہنچی تھی۔ اِس پر ایک سو کے قریب پاکستانی، افغان اور ایرانی مہاجربن سوار تھے۔
یورپی بارڈر ایجنسی فرونٹکس کے مطابق سن 2014، سن 2015 اور سن 2016 کے دوران ڈیڑھ لاکھ سے زائد غیرقانونی مہاجرین نے یورپ کا سفر اختیار کیا اور یورپی ملکوں میں غیرقانونی انداز میں داخل ہوئے۔ یہ امر اہم ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں داخل ہونے والے مہاجرین کی وجہ سے یورپی ملکوں میں عوامیت پسندی کی تحریکوں نے زور پکڑا اور اندرونی خلفشار میں اضافہ ہوا۔
فرونٹکس کے سربراہ فیبریس لیگیری نے مزید کہا کہ یورپی اقوام کی جانب سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہ زیادہ تر کم مدتی ہیں اور دیرپا اثرات کے لیے وسط سے لمبے عرصے کے اقدامات کو متعارف کرنا ضروری ہو گا۔ لیگیری نے یہ بھی تجویز کیا کہ اٹلی کے لیے یورپی یونین کی بھرپور حمایت ضروری ہے تا کہ وہ بحیرہ روم سے پہنچنے والے مہاجرین کو سنبھال سکے۔ دوسری جانب یورپی یونین افریقی مہاجرین کی مہاجرت کو روکنے کے لیے نائجیریا، سینیگال، مالی، نائجر اور ایتھوپیا کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
فرونٹکس کے سربراہ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ رواں برس کے دوران مہاجرت کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے متعارف کی جانے والی بعض پالیسیوں کے مثبت اثرات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ ان پالیسیوں میں لیبیا کے کوسٹ گارڈز کی تربیت اور بحیرہ روم کا صوفیہ آپریشن اہم ہے۔