روس اور ایران نوبل انعام کی تقریب میں ایک بار پھر مدعو
1 ستمبر 2023نوبل فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس اور بیلا روس کے نمائندوں کو نوبل انعام کی تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی جبکہ ایران کو بھی اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس بار سویڈن کے دارالحکومت میں ہونے والی تقریب میں ان تینوں ممالک کے نمائندوں کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس سال نوبل امن انعام کس کو مل سکتا ہے؟
فاؤنڈیشن نے کہا کہ اس نے ان لوگوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے، جو نوبل انعام کی اقدار کا اشتراک نہیں کرتے ہیں۔
ایران میں نئے انقلاب کا ناقابل تنسیخ عمل شروع ہو چکا، شیریں عبادی
امیگریشن مخالف سویڈش ڈیموکریٹس پارٹی کے ایک رہنما جمی اکیسن کو بھی اس برس پہلی بار تقریب میں مدعو کیا گیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ مصروفیات کی وجہ سے وہ اس میں شرکت نہیں کریں گے۔
ملالہ نے دادو کے ٹینٹ سٹی میں اسکول قائم کر دیا
نوبل انعام کی چھ میں سے پانچ تقریبات ہر برس اسٹاک ہولم میں ہوتی ہیں، جبکہ امن کے نوبل انعام کی تقریب اوسلو میں منعقد ہوتی ہے اور وہیں یہ دیا جاتا ہے۔
امن کا نوبل انعام، انسانی حقوق کے تین چیمپیئنز کے نام
پچھلے سال نوبل فاؤنڈیشن نے کہا تھا کہ روس اور بیلاروس کے سفیروں کو ''یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے'' مدعو نہیں کیا جائے گا۔
بیلاروس روس کا اہم اتحادی ہے اور اس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو نے روس کے ''خصوصی فوجی آپریشن'' کی حمایت کی تھی۔
ایران کو بھی گزشتہ سال مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ تہران کو انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے طویل عرصے سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے، ایرانی حکومت انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہو سکتی ہے۔
تاہم ایک سویڈش یورپین پارلیمان کی رکن کیرن کارلسبرو نے فاؤنڈیشن کی جانب سے دعوت ناموں بھیجنے کے اس فیصلے کو ''انتہائی نامناسب'' قرار دیا۔
انہوں نے فاؤنڈیشن پر الزام لگایا کہ جب یوکرین کے ثقافتی مراکز پر میزائل گر رہے ہیں اور بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے، ''روس کو ایک گلیمرس پارٹی میں مدعو کرنے کے لیے گرین لائٹ دے کر ایک ''خطرناک مثال'' قائم کی گئی ہے۔
سویڈن کے سرکاری ریڈیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے روس، بیلاروس اور ایران کو ایسی ''بدمعاش ریاستیں '' قرار دیا جو ''اپنے شہریوں پر ظلم کرتی ہیں، جو اپنے ہی لوگوں اور پڑوسی ممالک کے خلاف جنگ اور دہشت گردی جیسی حرکتوں میں ملوث ہیں۔''
انہوں نے کہا کہ ''وہ ایسے ممالک ہیں جو کسی بھی طرح سے جمہوری اقدار کو نہیں اپناتے ہیں۔''
عموماً سویڈن کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو روایتی سطح پر نوبل انعام کی ضیافت میں مدعو کیا جاتا ہے، تاہم سویڈن کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹس رہنما جمی اکیسن کو ماضی میں کبھی دعوت نہیں دی گئی۔
ان کی پارٹی کو نازیوں کے ہمدردوں نے قائم کی تھی اور کئی دہائیوں سے اسے مرکزی دھارے سے دور رکھا گیا ہے۔ پچھلے سال کے عام انتخابات میں اس پارٹی نے تقریباً پانچ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
مسٹر اکیسن نے کہا کہ وہ نوبل کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔ انہوں نے فیس بک پر لکھا، ''بدقسمتی سے میں اس دن مصروف ہوں۔''
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)