روس اور مغرب کے درمیان کشیدگی کا اثر پولستانی سیب پر
1 جون 2016یورپی یونین کے ایسے ممالک جن کا انحصار زرعی برآمدات پر ہے، روس کی جانب سے جوابی پابندیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ پولینڈ بھی ایسے ہی ممالک میں سے ایک ہے، جو گزشتہ دو برس سے عائد ان پابندیوں کو قائم رکھنے اور روس کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں مشرقی یورپ میں نیٹو کی بھاری تعیناتی کا حامی ہے۔
دو برس ہو چکے ہیں تاہم اب پولستانی کسان اور زرعی پیدوار سے منسلک دیگر افراد کا کہنا ہے کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جانا چاہیئں تاکہ وہ بھی جوابی پابندیاں اٹھا لے۔ فرانس اور آسٹریا سمیت متعدد دیگر یورپی ممالک میں بھی ایسے ہی مطالبے سامنے آر ہے ہیں۔
پولستانی سیبوں کے برآمدکنندگان کے برخلاف وارسا حکومت روس کی کھلی مخالفت کرتی ہے اور وہ چاہتے ہے کہ کسی ممکنہ روسی جارحیت کی روک تھام کے لیے نیٹو یورپ کی مشرقی سرحدوں پر مزید دفاعی اقدامات کرے۔
کچھ عرصے تک پولستانی سیب برآمدکنندگان پابندیوں کے باوجود روس میں سیبوں کی ترسیل کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس کے لیے وہ کسی تیسرے ملک یعنی بیلاروس یا یوکرائنی اور کریمیا کے ذریعے یہ سیب روس پہنچا دیتے تھے، تاہم بعد میں یہ سلسلہ بھی رک گیا۔
چند روسی ہول سیلرز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اب بھی پولستانی سیپ خریدتے ہیں۔ ابھی اپریل میں بھی پابندیوں کے باوجود بھی وہ یہ سیب منگواتے رہے ہیں۔ ادھر روس نے بھی یورپی ممالک سے ایسی اشیاء کی درآمد روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں اور یوکرائن اور بیلا روس کے ساتھ سرحدوں پر کسٹم کے سخت ترین قواعد لاگو کیے جا چکے ہیں۔
جون میں روسی حکام نے پولینڈ سے روس پہنچنے والے ساڑھے انیس ٹن سیب تباہ کیے۔ یہ سیب پولینڈ سے بیلا روس کے راستے روسی علاقے سمولینسک اوبلاسٹ پہنچائے گئے تھے۔ حکام کے مطابق پکڑا جانے والا یہ ٹرک بیلا روس کی ایک کمپنی کا تھا، جس پر لدی تمام اشیاء قبضے میں لے کر تلف کرنے کے لیے بھجوا دی گئیں۔
روس کی جانب سے زرعی اشیاء خصوصاﹰ تازہ سیبوں کی درآمد پر عائد پابندیوں کا کوئی سیاسی اثر تو نہیں ہوا تاہم پولستانی کسانوں اور برآمدکنندگان نے اس اثر کو محسوس کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پولستانی پھلوں کا معیار بہت اچھا نہیں اور وہ دیگر منڈیوں میں مقابلے کے ذریعے اپنی اجناس کی فروخت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔