1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

روس اور وسطی ایشیائی ممالک کی فوجی مشقین

23 اکتوبر 2021

روسی، تاجک اور چند دیگر وسطی ایشائی ممالک کی افواج نے تاجکستان کی سرحد کے پاس جنگی مشقوں ميں حصہ ليا۔ روس کا کہنا ہے کہ یہ مشقيں افغانستان میں دہشت گردوں کے ممکنہ خطرے کے تناظر ميں کی گئیں۔

https://p.dw.com/p/425mF
تصویر: picture alliance / ASSOCIATED PRESS

افغان سرحد سے بيس کلوميٹر کے فاصلے پر واقع موميراق فائرنگ رينچ پر يہ مشقيں جمعے کے روز منعقد ہوئيں۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی ان مشقوں ميں روس، تاجکستان اور سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہنے والے چند دیگر ملکوں کے قريب پانچ ہزار فوجیوں اور سات سو بکتر بند گاڑيوں نے حصہ ليا۔  یہ ممالک ماسکو کی قيادت ميں ایک سکیورٹی معاہدے کا حصہ ہیں۔

تاجکستان کے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ ان فوجی مشقوں کا مقصد افغانستان ميں سلامتی کی صورتحال بگڑنے کی ممکنہ صورت ميں حالات سے نمٹنے کے ليے تياری تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کے پاس جدید ہتھیار ہیں، ان کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے اور وہ موجودہ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے کو بدامنی کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔‘‘

روس حکام کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے اس وعدے کا احترام کرتے ہيں کہ پڑوسی ملکوں کو ہدف نہيں بنايا جائے گا البتہ افغانستان ميں داعش اور القاعدہ  سميت ديگر جنگجو قوتيں بھی متحرک ہيں اور ان سے نمٹنے کے ليے تياری ضروری ہے۔ روسی حکام کا يہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان سے اسمگل کی جانی والی منشیات بھی خطے کے ليے ایک بڑا چیلنج ہے۔ روس نے وسطی ایشیا میں سابقہ سوویت یونین کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ عسکری تعاون بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔ تاجکستان میں روس کا ايک فوجی اڈا ہے جبکہ کرغيستان میں ايک ہوائی اڈا ہے۔

افغانستان ميں جرمن فوجیوں کا تجربہ کيسا رہا؟

حالیہ فوجی مشقوں میں روسی فوج کے  نائب سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ییوگینی پوپلاوسکی کا کہنا تھا، ''طالبان افغانستان سے اسلامک اسٹیٹ کو دھکيلنے کی کوشش کریں گے اور یہ عین ممکن ہے کہ وہ انہیں تاجکستان کی طرف بھیجیں۔‘‘

سوویت یونین نے افغانستان میں دس سالہ جنگ لڑی جو سن 1989 میں اس کے فوجیوں کے انخلاء کے ساتھ ختم ہوئی۔ حالیہ برسوں میں روس ایک بااثر ثالث کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ماسکو حکومت افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے منقسم افغان دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار کی میزبانی کر چکی ہے۔