روس میں جنگ مخالف مظاہرے
گرفتاری کے خطرے کے باوجود کئی روسی شہروں میں بے شمار لوگوں نے یوکرائن کی جنگ کے خلاف احتجاج کیا۔ روسی حکام نے ان مظاہرین کے خلاف فوری اقدامات کیے۔
’جنگ نہیں‘
سینٹ پیٹرزبرگ میں چوبیس فروری کے روز سینکڑوں افراد اپنا احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے جمع ہوئے۔ یہ مظاہرین ’جنگ نہیں‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ کئی روسی شہریوں نے یوکرائنی باشندوں کے ساتھ اپنے روابط منقطع کر دیے ہیں۔ ان میں سرحد پار آباد خاندانوں سے تعلق رکھنے والے شہری بھی شامل ہیں۔
پولیس کا ردعمل
مظاہروں پر پابندی اور سخت سزاؤں کے خوف کے باوجود سماجی طور پر سرگرم افراد نے بتایا کہ چوالیس روسی شہروں میں عام شہری احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوئے۔ ماسکو (تصویر) کی طرح باقی تمام مقامات پر بھی پولیس نے موقع پر پہنچچ کر مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
مظاہرے اور گرفتاریاں
سیاسی اور سماجی طور پر سرگرم روسی شہریوں کے مطابق اب تک ایک ہزار سات سو سے زائد روسی باشندوں کو یوکرائنی جنگ کے خلاف مظاہروں میں شریک ہونے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ تصویر ماسکو کی ہے، جہاں شہر کے مرکز میں واقع پشکن اسکوائر میں مظاہرین جمع ہوئے۔
یوکرائن کے ساتھ یک جہتی
’جنگ نہیں‘ اور ’فوجیوں کو واپس بلایا جائے‘، یہ ہیں وہ الفاظ جو اس تصویر میں ایک نوجوان خاتون کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ پر درج ہیں۔ یہ خاتون سینٹ پیٹرزبرگ میں کیے گئے احتجاج میں شریک تھی۔
مظاہرین کو پولیس نے تحویل میں لے لیا
مختلف شہروں میں حکام نے کووڈ انیس کی وبا کا سہارا لے کر بھی مظاہروں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کئی عینی شاہدین نے مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی کو اپنے کیمروں بطور ثبوت ریکارڈ بھی کر لیا۔
حراست کے بعد بھی احتجاج
احتجاج میں شریک ایک روسی کارکن اپنے ہاتھ کے پچھلی طرف بنایا گیا امن کا نشان دکھاتے ہوئے۔ اس نے یہ نشان اپنی گرفتاری کے بعد پولیس کے ایک ٹرک میں بیٹھے ہوئے بنایا۔ کلاؤڈیا ڈیہن (ع ح / م م)