1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس کی دو رُخی سیاست، تبصرہ

کرسٹیان ایف ٹریپے / امتیاز احمد20 نومبر 2014

روس کی خارجہ پالیسی گزشتہ کئی ماہ سے پہیلی بنی ہوئی ہے۔ تبصرہ نگار کرسٹیان ایف ٹریپے کے مطابق پوٹن کی سیاست نے زاروں کی آمرانہ توسیع پسندی اور سویت یونین کی تسلط پسندی کی یاد تازہ کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dqe4
تصویر: DW/A. Scherer

روس کے قومی نشان عقاب کے دو سر ہیں۔ ایک دائیں جانب دیکھتا ہے تو دوسرا بائیں جانب۔ دنیا کی کئی دیگر قوموں نے بھی اسی قدیم نشان کو اپنا قومی نشان بنا رکھا ہے لیکن اگر بحران میں سفارتکاری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف روس ہی اپنے اس قومی نشان کی تعریف پر پورا اترتا دکھائی دیتا ہے۔ روسی عقاب مغرب پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے اور مشرق پر بھی۔ یہ عقاب ایک ایسے ملک میں کھڑا ہوا ہے، جو جغرافیائی و سیاسی لحاظ سے مشرق اور مغرب کے مابین واقع ہے۔

منگل کے روز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے روسی ایوان زیریں (ڈوما) میں تقریر کرتے ہوئے بین الاقوامی صورتحال، روس کی صورتحال اور یوکرائن کے بحران کی وضاحت کی۔ انہوں نے ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کی تعریف کی اور ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کا کچھ بھی ’متبادل‘ نہیں ہو سکتا۔ لاوروف کو اس بات کا بھی اچھی طرح سے علم ہے کہ یہ روس ہی ہے، جس نے گزشتہ کئی ماہ سے یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی لاوروف کا دعویٰ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یوکرائن بحران کا ذمہ دار مغرب ہے۔

ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ اور ظلم کے بعد معصومیت

ایک مرتبہ پھر روسی قیادت نے اپنے ہاتھوں کو صاف ثابت کرتے ہوئے حقائق کو گھما پھرا کر پیش کیا ہے۔ ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولنے اور ظلم کے بعد مظلوم بننے کی روش نے روس کے ساتھ مذاکرات کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ حقائق کے مسلسل انکار اور جھوٹ کے ساتھ ساتھ مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کی روسی فوج کی حمایت نے سویت یونین کے طرز سیاست کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ماسکو کی بے رحمانہ خارجہ پالیسی میں ماضی کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ خارجہ پالیسی زاروں (زاریّت) کی آمرانہ توسیع پسندی اور سویت یونین کی تسلط پسندی کا مرکب نظر آتی ہے۔

Christian F. Trippe
تبصرہ نگار کرسٹیان ایف ٹریپےتصویر: DW/Frommann

تکلیف اور ماسکو کا خوف

خود روس سے دوستانہ تعلقات رکھنے والے ملک، جیسا کی قزاقستان، تکالیف اٹھانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ سابق سویت یونین کی سلطنت سے تعلق رکھنے والے ملکوں میں یہ فکر پائی جاتی ہے کہ صدر پوٹن کی طرف سے منظم کردہ ’یورو ایشیائی اقتصادی یونین‘ وہ گاڑی ثابت ہو سکتی ہے، جو خطے میں سیاسی تابعدار ملک اور اقتصادی غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ زاری حکومت اور سویت یونین کی طرح اب دوبارہ بالٹک کے علاقے، قفقاز اور وسطی ایشیا میں ماسکو حکومت سے خوف پایا جاتا ہے۔

حال ہی میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے روس کے سیاسی مقاصد کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ اس کے تین دن بعد جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے روس کا دورہ کیا تاکہ مذاکرات کے دھاگوں کو دوبارہ جوڑا جا سکے۔ لگتا یوں ہے کہ مبہم اور دو رخی خارجہ پالیسی جان بوجھ کر اختیار کی گئی ہے۔ طاقت کے مرکز اور دو سروں والے عقاب کے شہر کریملن میں جرمن وزیر خارجہ کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپ دوبارہ تقسیم ہو سکتا ہے، مشرق اور مغرب کی تقسیم ہو سکتی ہے۔

مغرب تنگ آ جائے گا

روس مشرق اور مغرب کے درمیان تیسری قوت کے طور ابھرنا چاہتا ہے۔ اس کا دو رخی ظہور اور ماسکو کی اقتدار کی سیاست یورپ کو تھکا کر رکھ دے گی۔ روس میں پہلے ہی یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ یورپ نے اسے مجبور کرتے ہوئے مغرب سے الگ تھلگ کر کے رکھ دیا ہے اور بعض اوقات کہانیاں واقعات سے پہلے ہی بننا شروع ہو جاتی ہیں۔