روس یوکرین میں ہارا تو ایٹمی جنگ شروع ہو سکتی ہے، میدویدیف
19 جنوری 2023یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے ساتھ گزشتہ برس فروری کے اواخر میں شروع ہونے والے جنگ تقریباﹰ گیارہ ماہ سے جاری ہے اور اس میں اب تک دونوں جنگی فریقوں کا بے تحاشا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے۔
مغربی دنیا اس جنگ کی وجہ سے نہ صرف روس پر بہت سی پابندیاں لگا چکی ہے بلکہ روسی فوج کے خلاف یوکرین کی کھل کر عسکری مدد بھی کر رہی ہے۔ اس کے برعکس روس کا اندازہ تھا کہ وہ یوکرین کے خلاف اپنی جنگی مہم بہت جلد جیت لے گا تاہم ایسا نہ ہوا اور ماسکو کو اس جنگ میں ابھی تک بڑے جانی اور مالی نقصانات کا سامنا ہے۔ روس آج بھی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ اس کے لیے یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہو گا۔
’ایٹمی طاقتیں جنگیں نہیں ہارتیں‘
روسی یوکرینی جنگ کے پس منظر میں ماضی میں روسی صدر کے فرائض انجام دینے والے اور موجودہ صدر پوٹن کے بہت قریبی اتحادی دمیتری میدویدیف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر اپنے ایک بیان میں آج جمعرات انیس جنوری کے روز لکھا، ’’ایک ایٹمی طاقت کی ایک روایتی جنگ میں شکست جوہری ہتھیاروں سے جنگ شروع ہو جانے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔‘‘
سن 2008ء سے لے کر 2012ء تک صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے دمیتری میدویدیف موجودہ صدر پوٹن کی قیادت میں قائم روس کی بہت طاقت ور سکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے ٹیلیگرام پر اپنی پوسٹ میں لکھا، ''ایٹمی طاقتیں آج تک کے ایسے بڑے تنازعات میں کبھی ناکام نہیں رہیں جو ان کے مستقبل کا تعین کر سکتے ہوں۔‘‘
نیٹو کو واضح تنبیہ
دمیتری میدویدیف نے اپنا یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب کل جمعہ بیس جنوری کے روز جرمنی میں رامشٹائن کے فضائی اڈے پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع کا ایک اہم اجلاس ہو رہا ہے۔
اگر روس یوکرین پر جوہری حملہ کرے تو کیا ہو گا؟
اس اجلاس میں شریک وزراء یوکرین میں روس کو فوجی شکست دینے کے لیے کییف حکومت کی مدد اور اس جنگ سے متعلق مغربی دنیا کی اب تک کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کریں گے۔
اس تناظر میں دمیتری میدویدیف نے اپنے بیان میں لکھا کہ نیٹو کی رکن ریاستوں اور دیگر ممالک کے وزرائے دفاع کو اس بارے میں بھی غور کرنا چاہیے کہ ان کی حکمت عملی اپنے اندر کس کس طرح کے خطرات لیے ہوئے ہے۔
یوکرینی جنگ: ژاپوریژیا جوہری پاور پلانٹ دھماکوں سے لرز اٹھا
دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں
روس اور امریکہ دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ دونوں ملک دنیا کے 90 فیصد کے قریب جوہری ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ آئینی طور پر روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی ممکنہ استعمال کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار صدر پوٹن کے پاس ہے۔
جہاں تک روس اور نیٹو کی عسکری طاقت کے موازنے کا تعلق ہے تو روایتی جنگی طاقت اور عسکری ساز و سامان کے شعبے میں نیٹو کو روس پر برتری حاصل ہے۔ لیکن اگر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یورپ میں، جہاں یوکرین کی جنگ جاری ہے، روس کو نیٹو پر برتری حاصل ہے۔
یوکرینی جنگ سے متعلق پوٹن کا موقف
چوبیس فروری 2022ء کے روز ماسکو کے فوجی دستوں کو یوکرین میں مسلح مداخلت کا حکم دینے والے صدر پوٹن اس جنگی تنازعے کو اپنی طرف سے باقاعدہ جنگ کا نام دینے سے عسکری اور سیاسی سطح پر احتراز کرتے ہیں۔
ولادیمیر پوٹن کے بقول یوکرین کے خلاف روسی فوجی مہم ماسکو کا ایک 'خصوصی فوجی آپریشن‘ ہے اور اس تنازعے میں روس مبینہ طور پر مغرور اور جارحیت پسند مغرب کے خلاف اپنی بقا کی جہدوجہد میں مصروف ہے۔
بائیڈن اور شی کی پہلی صدارتی ملاقات: جوہری دھمکیوں کی مذمت
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کو خطرناک ترین دہائی کا سامنا ہے، پوٹن
صدر پوٹن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ روس جارحیت کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف اپنا اور روسی عوام کا تحفظ کرنے کے لیے ہر قسم کے دستیاب ذرائع استعمال کرے گا۔
مغربی دنیا کا موقف
روسی یوکرینی جنگ براعظم یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک کا سب سے ہلاکت خیز تنازعہ ثابت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یہی جنگ ماسکو اور مغربی دنیا کے مابین 1962ء میں کیوبا کی سرزمین پر میزائل نصب کرنے کے منصوبے کے باعث پیدا ہونے والے بحران کے بعد سے آج تک کی سب سے بڑی مخاصمت بھی بن چکی ہے۔
ولادیمیر پوٹن کی جنگ نے روس کا بزنس ماڈل تباہ کر دیا
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے یوکرین کی جنگ کے باعث روس کی یہ کہہ کر مذمت کی جاتی ہے کہ یوکرین میں فوجی مداخلت روس کی طرف سے یوکرینی علاقے پر سامراجی قبضے کے لیے شروع کی گئی۔
جہاں تک خود یوکرین کا تعلق ہے تو کییف حکومت کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ یوکرین روس کے خلاف اس وقت تک لڑتا رہے گا، جب تک کہ آخری روسی فوجی کو بھی یوکرینی علاقے سے نکال نہیں دیا جاتا۔
م م / ر ب (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)