روسی تاجر خودورکوسکی پر نئے الزامات
28 ستمبر 2009وکیل صفائی نے وزیر اعظم ولادی میر پوٹن کو بھی گواہ کے طور پر طلب کئے جانے کی درخواست کی تھی جو منظور نہیں کی گئی۔
میخائیل خودورکوسکی روس کے امیرترین فرد رہے ہیں، سابق آئل کمپنی یوکوس ان کی ملکیت تھی۔ وہ ٹیکس چوری اور دھوکہ دہی کے جرم میں 2005ء سے سزائے قید بھگت رہے ہیں۔ پیر کو ان کے خلاف بدعنوانی کے نئے الزامات کی بنیاد پر عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا۔ یہ الزامات بھی ثابت ہو گئے تو انہیں عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ نئے الزامات کے تحت وہ حکومتی رعائیتوں سے حاصل ہونے والے 25 ملین ڈالر سے زائد مالیت کے تیل کے لین دین میں بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں۔
خودورکوسیکی کے حامی ان مقدمات کو ماسکو حکومت کی جانب سے انہیں سزا دیئے جانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وزیر اعظم ولادی میر پوٹن کے دور صدارت میں انہیں چیلنج کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خودورکوسکی کے خلاف کارروائی کا ایک مقصد تیل کے شعبے پر حکومتی کنٹرول بڑھانا ہے۔
خودورکوسکی کے ایک وکیل یوری شمٹ کا بھی یہی موقف ہے، وہ کہتے ہیں: 'وہ لوگ ایک ایسے شخص کو سزا دینا چاہتے ہیں، جس نے پوٹن کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر اپنی رائے ظاہر کی، جو معشیت کو آزادانہ خطوط پر استوار کرنا چاہتا تھا اور ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ چاہتا تھا۔'
خودورکوسکی کو پوٹن کے دور صدارت کے دوران سزا ہوئی تھی۔ 2008ء میں میدودیف نے صدارت کا منصب سنبھالا تو خودورکوسکی کے حامیوں کو اُمید تھی کہ وہ انہیں رہا کر دیں گے۔ اسی بناء پر یوری شمٹ نے روسی صدر دیمتری میدویدیف کو ان کے پیشرو پوٹن کا ایک عکس قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میدویدیف دراصل پوٹن کی نئی شکل ہیں اور یہ بات مغرب پر بھی واضح ہو چکی ہے۔
اُدھر میخائیل خودورکوسکی نے الزام عائد کیا کہ ان کی رہائی میں مدد دینے والی دستاویز کو پوشیدہ رکھا جارہا ہے۔ پیر کو ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ اسغاثہ ایسی دستاویز چھپا رہے ہیں، جن سے ثابت ہو جائے گا کہ مبینہ طور پر چوری کیا گیا تیل، دراصل قانونی طور پر منتقل کیا گیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ میخائل خودورکوسکی کے خلاف مقدمے کا فیصلہ آئندہ برس موسم بہار سے قبل متوقع نہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ