روسی جوہری ہتھياروں کی بيلاروس میں تنصیب کی اہمیت اور خطرات
26 مارچ 2023صدر ولاديمير پوٹن کی جانب سے بيلاروس ميں روسی ٹيکٹيکل جوہری ہتھياروں کی تنصیب کے اعلان پر وسيع تر رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نيٹو نے اتوار چھبيس مارچ کو اپنے ایک بيان ميں اس روسی فيصلے کی مذمت کی اور اسے 'خطرناک اور غير ذمہ دارانہ‘ قرار ديا۔
کييف حکومت نے زيادہ شدت کے ساتھ نہ صرف اس روسی اقدام کی مذمت کی بلکہ يہ مطالبہ بھی کيا کہ اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کيا جائے۔ يوکرينی وزارت خارجہ نے اسے ايک اور 'اشتعال انگيز‘ قدم بھی قرار ديا۔ يوکرينی حکومت نے يورپی يونين اور 'گروپ آف سيون‘ ممالک سے يہ مطالبہ بھی کيا ہے کہ بيلاروس کو اس فيصلے کے ممکنہ نتائج سے خبردار کيا جائے۔
کئی عسکری ماہرين کے مطابق روس کی جانب سے اپنے ٹيکٹيکل جوہری ہتھياروں کی بيلاروس میں تنصیب کا فيصلہ ايک اہم پيش رفت ہے کيونکہ امريکا کے برعکس روس اب تک اپنے جوہری اثاثے بيرون ملک منتقل کرنے سے گزير کرتا آيا ہے۔ 'فيڈريشن آف امريکن سائنٹسٹس‘ سے وابستہ ہانس کرسٹنسن کا اس بارے ميں کہنا ہے، ''يہ صدر پوٹن کی طرف سے نيٹو کو ڈرانے دھکانے کی کوشش ہے کيونکہ ہتھياروں کی بيلاروس ميں تعيناتی سے عملی طور پر کوئی فائدہ نہيں ہو گا۔‘‘
جوہری ہتھياروں کی روک تھام کے ليے متحرک بين الاقوامی مہم کی جانب سے بھی اس پيش پر رد عمل ظاہر کيا گيا ہے۔ ''يوکرينی جنگ کے تناظر ميں غلط فيصلے يا غلط فہمی کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔ جوہری ہتھياروں کی منتقلی صورتحال کو مزيد پيچيدہ بنا دے گی جس سے کسی بڑے انسانی الميے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘
روسی صدر کا اعلان اور پس منظر
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ہفتے کی شب بتايا کہ روس اپنے ہمسایہ اور قریبی اتحادی ملک بیلاروس میں اپنے 'ٹیکٹیکل‘ جوہری ہتھیار نصب کرے گا۔ انہوں نے یہ اعلان سرکاری ٹیلی وژن کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ صدر پوٹن نے کہا کہ اس بارے میں بیلاروس کے صدر لوکاشینکو اور ان کے مابین اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ ان کے بقول ایسا کرتے ہوئے روس جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔
فیکٹ چیک: کیا پوٹن نے شی جن پنگ کے سامنے گھٹنے ٹیکے؟
روس نے سولہ ہزار یوکرینی بچے کس طرح اغواکیے؟
پوٹن کو گرفتار کرنے کا مطلب ہوگا 'اعلان جنگ'، سابق روسی صدر
یہ فیصلہ روسی یوکرینی جنگ کے باعث ماسکو اور مغربی دنیا کے مابین مسلسل بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ 1990ء کی دہائی کے بعد يہ پہلا موقع ہو گا جب روسی جوہری ہتھيار بيرون ملک نصب کیے جائیں گے۔ پوٹن کا اس بارے ميں کہنا تھا، ''اس ميں کوئی غير معمولی بات نہيں۔ امريکہ گزشتہ کئی دہائيوں سے ايسا کرتا آيا ہے۔ وہ عرصہ دراز سے اپنے ٹيکٹيکل جوہری ہتھيار اتحادی ممالک کی حدود ميں تعينات کرتے آئے ہيں۔‘‘ پوٹن نے بالخصوص اس بات پر زور ديا کہ ان کا ملک ايسا قدم اٹھاتے وقت اپنی بين الاقوامی ذمہ داريوں کی خلاف ورزی نہيں کرے گا۔ روسی صدر نے يہ بھی باور کرايا کہ ان ہتھياروں کا کنٹرول بيلاروسی حکام کے حوالے ہر گز نہيں کيا جائے گا۔
روسی صدر ولاديمير پوٹن نے یہ نہیں بتایا کہ ممکنہ طور پر بیلاروس میں نصب کیے جانے والے ان روسی جوہری ہتھیاروں کی تعداد کتنی ہو گی اور ان کی تنصیب کب تک مکمل ہو جائے گی۔
ٹيکٹيکل جوہری ہتھيار کسے کہتے ہيں؟
'ٹيکٹيکل‘ جوہری ہتھياروں کی اصطلاح ايسے ہتھياروں کے ليے استعمال کی جاتی ہے، جو ميدان جنگ ميں چھوٹے مخصوص اہداف کے حصول کے ليے استعمال ميں لائے جا سکتے ہيں۔ روايتی جوہری ہتھيار پورے کے پورے شہروں کو نيست و نابود کر دينے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ اس کے برعکس ٹيکٹيکل ہتھيار مقابلتاً چھوٹے اور کم شدت کے ہوتے ہيں۔
ع س / م م (روئٹرز)