1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی صدارتی الیکشن، پوٹن کی فتح کا باضابطہ اعلان

5 مارچ 2012

روس میں کل اتوار کو ہوئے صدارتی الیکشن کے باقاعدہ نتائج جاری کر دیے گئے ہیں اور ماسکو میں ملکی الیکشن کمیشن نے 59 سالہ موجودہ وزیر اعظم اور سابق صدر ولادیمیر پوٹن کو فاتح قرار دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/14FMn
تصویر: dapd

ماسکو میں روسی الیکشن کمیشن کے آج پیر کو کیے گئے سرکاری اعلان کے مطابق چار مارچ کے صدارتی انتخابات میں اب تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ولادیمیر پوٹن 63.75 فیصد ووٹ حاصل کر کے اس الیکشن کے فاتح قرار پائے۔ اس طرح ولادیمیر پوٹن کو ان کی آخری مرتبہ 2004ء کے صدارتی الیکشن میں فتح کے مقابلے میں واضح طور پر کم ووٹ حاصل ہوئے، جب انہیں 71.3 فیصد عوامی تائید ملی تھی۔

ولادیمیر پوٹن کی فتح کا اعلان کرتے ہوئے روسی الیکشن کمیشن کے سربراہ ولادیمیر چُوروف نے کہا، ’99 فیصد سے زائد ووٹوں کی گنتی کے بعد عبوری سرکاری نتائج کی رو سے ولادیمیر پوٹن وفاق روس کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے ہیں‘۔

Russland Wahlen Wladimir Putin bei der Stimmabgabe in Moskau
تصویر: dapd

اس سے قبل صدارتی الیکشن میں رائے دہی مکمل ہونے کے بعد کل اتوار کی رات ماسکو میں کریملن کے قریب موجودہ وزیر اعظم اور تب تک صدارتی الیکشن کے امیدوار ولادیمیر پوٹن نے اپنے ایک لاکھ سے زائد حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان انتخابات کے کامیاب انعقاد کے ساتھ روس نے سیاسی طور پر اپنے بالغ اور ہوش مند ہونے کا امتحان پاس کر لیا ہے۔

اس موقع پر پوٹن کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ان تمام ہم وطنوں کے شکرگزار ہیں، جنہوں نے الیکشن میں اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا۔ ان انتخابات کے ابتدائی غیر سرکاری نتائج چونکہ کل رات ہی آنا شروع ہو گئے تھے، لہٰذا نتائج میں نظر آنے والے رجحان کو دیکھتے ہوئے اور 50 فیصد سے بھی زائد ووٹوں کی گنتی کے بعد ولادیمیر پوٹن نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ یہ الیکشن جیت گئے ہیں۔ پوٹن کے بقول اہم بات یہ ہے کہ انہیں صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے کی رائے دہی میں ہی صدر منتخب کر لیا گیا۔

اس موقع پر ماسکو میں پوٹن نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’ہم نے یہ انتخابات بڑے کھلے انداز میں اور جمہوری طور پر کی گئی ایماندارانہ جدوجہد کے نتیجے میں جیتے ہیں۔ یہ صرف صدارتی انتخابات ہی نہیں تھے بلکہ یہ وفاق روس کی خود مختاری اور سیاسی بلوغت کا امتحان بھی تھے۔ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم جیتیں گے، اور ہم جیت گئے ہیں‘۔

Wahlen Russland
تصویر: DW

ماسکو سے ملنے والی مختلف خبر ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق روس میں انتخابی مراکز کا رخ کرنے والے قریب 110 ملین رائے دہندگان میں سے دو تہائی نے پوٹن کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ولادیمیر پوٹن ابھی بھی روسی عوام کی اکثریت کے لیے ایک ایسے رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں جو کافی کچھ کر سکنے کا اہل ہے۔

لیکن روسی اپوزیشن کی رائے مختلف ہے۔ اپوزیشن کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اور پوٹن کے حریف صدارتی امیدوار گیناڈی سیوگانوف نے اتوار کی رات ہی کہہ دیا تھا کہ یہ الیکشن اور اس کے نتائج منصفانہ نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں سیوگانوف نے اپنے پارٹی کارکنوں اور انتخابی مبصرین میں سے چند ایک کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں پورے کے پورے ریاستی ڈھانچے نے صرف ایک امیدوار کے لیے کام کیا، اور وہ امیدوار وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن تھے۔

مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق اس وقت ماسکو میں خاموش کشیدگی اور کھچاؤ کا ماحول پایا جاتا ہے اور آج ہی شام وہاں تحریک برائے آزاد انتخابات کی طرف سے نئے سرے سے وسیع تر احتجاجی مظاہروں کا پروگرام بھی بنایا گیا ہے۔

رپورٹ: مقبول ملک / خبر رساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق