روسی پارلیمانی انتخابات، پوٹن کے لیے سیاسی دھچکا
5 دسمبر 2011اتوار کو منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی غیر سرکاری نتائج کے مطابق روسی وزیر اعظم کی سیاسی پارٹی یونائیٹڈ رشیا کو 49.79 فیصد ووٹ پڑے ہیں۔ روس کے مرکزی الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے قریب 92 فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کے مطابق یوں لگتا ہے کہ پوٹن کی پارٹی اب اپنی دو تہائی پارلیمانی اکثریت کھو دے گی اور اب اسے آئین میں ترامیم کے لیے دیگر سیاسی پارٹیوں کی ضرورت پڑے گی۔
اپوزیشن نے الزامات عائد کیے ہیں کہ انتخابی عمل کے دوران روسی حکام نے ایسے سیاسی حربے استعمال کیے، جن سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات ابھر آئے ہیں۔ ان نتائج کے مطابق روس کی مرکزی اپوزیشن کمیونسٹ پارٹی کو 19.5 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ 2007ء میں منعقد ہوئے گزشتہ انتخابات میں اسے صرف 12 فیصد ووٹ مل سکے تھے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یونائیٹڈ رشیا کی اس بری کارکردگی کی وجہ پوٹن کی طرف سے ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدواری کے لیے سامنے آنا ہے۔ ان کے بقول روسی عوام پوٹن کے گیارہ سالہ اقتدار سے کوئی خاص خوش نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے اس پارٹی کو ووٹ نہیں ڈالے۔
گزشتہ انتخابات میں روسی وزیر اعظم پوٹن کی پارٹی کو 64.3 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت پوٹن کی پارٹی کو پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی دوما کی کُل ساڑھے چار سو نشستوں میں سے 315 نشستیں حاصل ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کے انتخابات کے نتائج کے مطابق پوٹن کی پارٹی نے اپنی بھاری اکثریت کھو دی ہے۔
اس نئی پیشرفت کے بعد روسی وزیر اعظم پوٹن نے پارٹی کے صدر دفتر کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے انہیں مطلوبہ ووٹ مل چکے ہیں۔ اس موقع پر صدر دیمتری میدویدیف بھی پوٹن کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ روس میں جمہوریت فروغ پا رہی ہے۔ میدویدیف نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی اب سیاسی اتحاد بنانے کے لیے مذاکرات شروع کرے گی۔
کمیونسٹ پارٹی کے منجھے ہوئے سیاستدان گیناڈی سیوگانوف نے انتخابات کے ابتدائی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کریملن کے لیے ایک وارننگ ہے کہ اسے اب پارلیمان میں اپوزیشن کو جگہ دینا ہو گی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک