روسی گیس جرمنی میں، گزشتہ پچاس برس کے پیچیدہ تعلقات
10 مارچ 2022روس سے گیس کی درآمد کرنے پر جرمن حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔ جرمنی کا روسی گیس پر برسوں سے انحصار ہے۔ اس مناسبت سے جرمن چانسلر اولاف شولس نے پیر سات مارچ کو اپنے حکومتی موقف واضح طور پر پیش کر دیا ہے۔
اگر تیل پر پابندی لگی تو گیس کی سپلائی بھی منقطع ہو سکتی ہے، روس
چانسلر شولس نے اپنے بیان میں کہا کہ یورپ نے دانستہ طور پر روس پر پابندیوں کے نفاذ میں گیس کو استثنیٰ دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت یورپ کو گیس کی سپلائی گھروں اور دفاتر کو گرم رکھنے کے علاوہ آمد و رفت، بجلی کی فراہمی اور صنعت کے استحکام کے لیے اہم ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں سے یورپ کی سب سے بڑی اقتصاد کے حامل ملک کی معیشت کے لیے یہ گیس نہایت اہم رہی ہے۔
روسی گیس اور جرمنی
روس اپنی قدرتی گیس یورپی یونین کے قریب سبھی ملکوں کو فراہم کرتا ہے اور خاص طور پر مشرقی یورپ کے سبھی ممالک جرمنی سے زیادہ اس گیس کی فراہمی پر انحصار کرتے ہیں۔
یہ انحصار روسی گیس پر پچاس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ جرمنی برسوں سے روسی گیس کا اہم ترین خریدار رہا ہے۔ روسی حکام کے محکمہ کسٹم کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2020 میں روس سے ایکسپورٹ ہونے والی گیس کا قریب بیس فیصد جرمنی نے خریدا تھا اور اس طرح یہ اس گیس کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔
گیس سپلائی کی ابتدا
اس تعلق کی ابتدا سن 1955 سے ہوتی ہے جب سابقہ مغربی جرمنی کے چانسلر کونراڈ آڈیناؤر نے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے ماسکو کا دورہ کیا تھا۔ یہ تعلقات سابقہ سوویت یونین اور سابقہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے درمیان قائم ہوئے تھے۔ اس کے بعد سن 1958 اور 1960 کے تجاری معاہدے بھی ان ملکوں کی تاریخ میں اہم ہیں اور ان معاہدوں کی بدولت دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات مزید بڑھے تھے۔
گیرہارڈ شروئڈر روسی کمپنیوں سے مستعفی ہو جائیں، جرمن چانسلر
پائپ بچھانے کے بعد سن 1973 میں روسی گیس کی ترسیل اس وقت کے ملک مغربی جرمنی کو شروع کر دی گئی۔ اِسی سال گیس کی فراہمی سابقہ مشرقی جرمنی کے لیے بھی شروع کر دی گئی۔ اُس وقت سابقہ مشرقی جرمنی سابقہ سوویت یونین کی حلیف ریاستوں میں سے ایک تھی۔
روسی گیس اور امریکا
امریکا میں جرمنی کے روسی گیس پر انحصار کو ایک تنازعے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ سن 1960 کی دہائی میں پائپ کے ذریعے گیس کی ترسیل پر پابندی سے معاملہ متنازعہ ہوا۔ کئی امریکی صدور یورپ کے روسی گیس پر انحصار سے نالاں رہے۔ سن 1980 کی دہائی میں سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں کو بار بار قائل کرنے کو کوشش کی کہ وہ روسی گیس پر انحصار کو کم کریں لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا۔
سن 1989 میں دیوار برلن کے انہدام کے وقت اس وقت کے مغربی جرمنی کو ایک تہائی گیس کی فراہمی سابقہ سوویت یونین سے ہوتی تھی۔ اس کا حجم دیکھیں تو یہ ایک بلین کیوبک میٹر سے زیادہ تھا اور پھر جب منقسم جرمنی کا انضمام ہو گیا تو اب یہ حجم کئی بلین کیوبک میٹر میں پہنچ چکا ہے۔
روس یورپ گیس پائپ لائن، امریکا نے مخالفت تیز کردی
تناؤ کے حالات اور روسی گیس کا معاملہ
ابھی تک جرمنی کو روسی گیس کی فراہمی یمال پائپ لائن سے ہوتی ہے جو یوکرینی سرزمین سے گزرتی ہے۔ سن 2005 میں اس وقت کے جرمن چانسلر نے روس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اس نے نارڈ اسٹریم ون پائپ لائن بچھانے کی راہ ہموار کی۔
اس پائپ لائن سے جرمنی کو براہ راست گیس فراہم کی جانی ہے۔ یہ پراجیکٹ مکمل ہے لیکن ابھی فعال نہیں۔ اس منصوبے کی پولینڈ اور بالٹک ریاستوں نے شدید مخالفت کی تھی لیکن اندرون جرمنی اس کو بہت حمایت ملی۔
اب روس کے یوکرین پر حملے کے بعد نیا منظر ابھر رہا ہے۔ یورپی یونین نے جرمن مخالفت کے باوجود روسی گیس پر انحصار کو کم کرنے کی پالسی کو وضع کر لیا ہے۔
رکن ملکوں پر واضح کیا گیا ہے کہ وہ روسی گیس کی سپلائی سن 2022 میں کم کر کے دو تہائی تک کریں ۔ اس کے علاوہ سن 2030 تک روسی گیس کی سپلائی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
روس سے چین تک گیس پائپ لائن: سائبیرین پاور کا روسی حصہ مکمل
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کہا ہے کہ روسی گیس سے نجات ضروری ہے کیونکہ مسلسل اس پر انحصار ممکن نہیں کیونکہ گیس فراہم کرنے والا یہ ملک کھلی دھمکیاں دیتا ہے۔
آرتھر سولیوان (ع ح، ع ا)