روشنی کیا ہے؟ ایک تفصیلی تعارف
22 دسمبر 2009ایک عرصے تک سمجھا جاتا رہا کہ روشنی موجوں کی صورت میں سفر کرتی ہے کیونکہ زمین پر اس کا رویہ ایسا ہی محسوس کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے نیوٹن کے نظریے میں کہا گیا تھا کہ روشنی ذرات کی صورت میں حرکت کرتی ہے۔ تاہم دونوں ہی نظریات نے ان سوالات کو جنم دیا کہ اگر ایسا ہے توکیا خلا میں بھی کوئی ایسا واسطہ موجود ہے جو روشنی کی سورج سے زمین تک ترسیل میں معاونت کرتا ہے اور اگر ایسا واسطہ موجود ہے تو اس واسطے کی مذاحمت کے باعث زمین اور دیگر گردش کرتے سیاروں کی رفتار میں فرق کیوں نہیں پڑتا۔ پھر ایک فرضی واسطہ کا تصور بھی برسوں تک نظریات کا حصہ رہا۔ اس واسطے کو ایتھر کا نام دیا گیا تھا اور یہ واسطہ ایک ایسا آئیڈیل واسطہ تھا جوحرکت کرتے اجسام کی رفتاروں کو متاثر کئے بغیر معاونت کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔ یہ نظریہ بہرحال بہت سالوں تک قابل قبول نہ رہا اور سوالات قائم رہے۔
ان سوالات کے جوابات آئن سٹائن نے دیتے ہوئے ایک بالکل ہی نئی بات کہی۔ آئن سٹائن نے ڈبل بیہویر آف لائٹ یا روشنی کی دوہری ماہیت کے نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق روشنی کو کوئی واسطہ ملے تو وہ موجوں کی صورت میں جبکہ کوئی واسطہ دستیاب نہ ہو تو وہ فوٹانز یا توانائی کے پیکٹون کی صورت میں سفر کرتی ہے۔
روشنی کے بارے میں آئن سٹائن نے بہت تفصیل سے گفتگو کی۔ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ آئن سٹائن نے اسپیشل تھیوری آف ریلیٹیووٹی یعنی خصوصی نظریہ اضافیت میں کہا کہ روشنی جو کائنات میں سب سے تیز ترین شے ہے، اگر اس رفتار سے کوئی شے حرکت کرے تو کئی کلیے ایسے جسم پر ناقابل عمل ہو جاتے ہیں۔ مثلا روشنی کی رفتار سے حرکت کرتے ہوئے جسم کے لئے وقت رک جاتا ہے۔ فاصلہ صفر ہو جاتا ہے اور اس جسم کی کمیت لامتناہی ہو جاتی ہے۔
اس نظریے کو براہ راست کسی تجربے کی صورت میں نہیں آزمایا جا سکا کیوں کہ آج تک انسان روشنی کی رفتار حاصل نہیں کر پایا لیکن دیگر بالواسطہ تجربات سے بہرحال آئن سٹائن کا نظریہ صحیح ثابت ہوتا چلا گیا۔ اس حوالے سے سب سے اہم مثال ایٹمی گھڑیوں کے تجربے کی دی جاتی ہے۔ ایٹمی گھڑیوں کے ذریعے وقت کے انتہائی کم وقفوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسی گھڑیوں میں سے ایک کو تیز رفتار جیٹ پر رکھا گیا اور دوسری کو زمین پر۔پوری رفتار سے پرواز کے بعد واپس لوٹنے پر دیکھا گیا کہ دونوں گھڑیوں کے وقت میں فرق تھا۔ وہ گھڑی جو زمین پر تھی وہ آگے تھے اور وہ گھڑی جسے جیٹ جہاز میں رکھا گیا تھا، پچھے تھی۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عدنان اسحاق