روہنگيا مسلمان ميانمار واپسی کے حوالے سے تحفظات کا شکار
3 اکتوبر 2017بنگلہ ديش کے علاقے کوکس بازار ميں پناہ لينے والے پانچ لاکھ سے زائد روہنگيا مسلمانوں ميں سے ايک عبداللہ کا کہنا ہے، ’’سب چيزيں نذر آتش کی دی گئی تھيں، حتی کہ انسان تک۔‘‘ اس کے بقول کسی بھی شخص کے پاس اپنی کوئی شناختی دستاويز بچی ہی نہيں تو پھر وہ تصديق کے ليے کيا جمع کرائے گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ديگر مہاجرين نے بھی اسی طرح کے خيالات کا اظہار کيا اور وہ ميانمار کے حکومت کے ايسے دعوں سے مطمئن نہيں۔
قبل ازيں پير دو اکتوبر کے روز ميانمار کے ايک سينیئر وزير نے عنديہ ديا تھا کہ ان کی حکومت پناہ کی تلاش میں بنگلہ ديش جانے والے لاکھوں روہنگيا مسلمانوں کو واپس ميانمار ميں آباد کرنے کو تيار ہے۔ بنگلہ ديشی وزير خارجہ اے ايچ محمود علی نے ميانمار کی نوبل امن انعام يافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کے ايک نمائندے کے ساتھ دارالحکومت ڈھاکا ميں رواں ہفتے کے آغاز پر بات چيت کے بعد کہا تھا کہ روہنگيا مسلمانوں کی واپسی کے ليے ميانمار کی جانب سے ايک منصوبہ پيش کيا گيا ہے۔ بنگلہ ديشی وزير خارجہ نے مزيد بتايا کہ اس سلسلے ميں ايک گروپ تشکيل دے ديا گيا ہے، جس کے ارکان روہنگيا کی واپسی کے عمل کو آگے بڑھائيں گے۔
اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک بنگلہ ديشی اہلکار نے منگل کے روز کہا ہے کہ منصوبوں کے باوجود يہ ايک طويل اور پيچيدہ مرحلہ ہے۔ اس کے بقول بنگلہ ديش ميں پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران پہنچنے والے پانچ لاکھ سے زائد مہاجرين کے علاوہ تين لاکھ ايسے تارکين وطن بھی ہيں، جو گزشتہ برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں بنگلہ ديش آئے تھے۔ تاہم ميانمار حکومت صرف ان مہاجرين کو واپس لينے کے ليے تيار ہے، جو اکتوبر سن 2016 کے بعد بنگلہ ديش پہنچے۔ اس اہلکار نے بتايا، ’’ہم يہ بتا چکے ہيں کہ اکثريتی روہنگيا مسلمانوں کے پاس کوئی دستاويز نہيں اور اسی ليے يہ مرحلہ ذرا نرم اور لچک کے ساتھ ہی پورا کيا جا سکے گا۔‘‘ اس نے مزيد بتايا کہ مہاجرين کی تصديق کے عمل ميں کون شامل ہو گا، اس کا فيصلہ ميانمار کی حکومت کرے گی۔ ڈھاکا حکومت نے البتہ اس عمل ميں بين الاقوامی ايجنسيوں کو ملوث کرنے کا کہا تھا۔