روہنگیا اکثریتی علاقے، ڈھائی ہزار سے زائد گھر جلا دیے گئے
2 ستمبر 2017دو ستمبر ہفتے کے روز میانمار کی حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ شمال مغربی ریاست راکھین میں کئی دہائیوں کے دوران پیش آنے والے ان بدترین واقعات میں 2600 مکانات نذر آتش کیے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر سے تعلق رکھنے والے امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ راکھین میں جاری حکومتی کریک ڈاؤن اور پرتشدد واقعات کے تناظر میں حالیہ چند دنوں میں 58 ہزار سے زائد روہنگیا باشندے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں داخل ہو چکے ہیں۔
میانمار کی حکومت اراکان روہنگیا سالویشن آرمی نامی مسلم شدت پسند گروپ کو ان گھروں کو نذر آتش کرنے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اس گروپ نے گزشتہ ہفتے پولیس اور فوج پر کیے جانے والے منظم حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ انہی حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز نے راکھین میں دوبارہ آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
دوسری جانب بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا باشندوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کا یہ آپریشن اصل میں روہنگیا افراد کو راکھین سے مکمل طور پر بے دخل کرنے کے لیے ہے اور اسی لیے وہاں قتل عام اور جنسی تشدد جیسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
اسی تناظر میں میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ راکھین میں روہنگیا افراد کے خلاف جاری تشدد کو رکوانے میں ناکام رہی ہیں اور ان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی مضبوط موقف بھی سامنے نہیں آیا۔
تشدد کے واقعات میں اسی تیزی کے نتیجے میں عالمی خوراک پروگرام نے بھی راکھین میں اپنے امدادی منصوبوں کی بندش کا اعلان کر دیا ہے۔ امدادی اداروں پر میانمار کی سکیورٹی فورسز یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ وہ خوراک جان بوجھ کر روہنگیا عسکریت پسندوں تک پہنچا رہی ہیں اور یہی عسکریت پسند پولیس اور فوج پر حملوں میں ملوث ہیں۔
اسی تناظر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے تشدد کے ان واقعات پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے، تویہ ایک بہت بڑے انسانی المیے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔