’روہنگیا بحران کی تفتیش عالمی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں‘
13 اپریل 2018میانمار کی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی کسی تفتیش کو قبول نہیں کرے گی کیوں کہ یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت کے دائرہ کار ہی میں نہیں آتا۔
’ہمیں کوئی قتل تو نہیں کر رہا‘
گزشتہ برس اگست کے آخر میں روہنگیا کے خلاف شروع ہونے والے عسکری آپریشن کے بعد راکھین ریاست میں بسنے والے قریب سات لاکھ روہنگیا باشندے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچ گئے تھے اور اب تک ان کی واپسی کی کوئی سبیل نہیں ہو پائی ہے۔
میانمار کا موقف ہے کہ اس کی اس کارروائی کا مقصد عسکریت پسند تنظیم روہنگیا سالویشن آرمی سے ملک کا دفاع تھا، تاہم بنگلہ دیش پہنچنے والے مہاجرین نے اپنے بیانات میں بتایا تھا کہ راکھین میں انہیں تشدد، جنسی زیادتی، مکانات اور بستیوں کی تباہی اور قتل عام جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا، اسی تناظر میں میانمار پر روہنگیا کی ’نسل کشی‘ جیسے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
پیر کے روز دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوج داری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے ججوں سے سوال کیا تھا کہ آیا اس بین الاقوامی عدالت کو روہنگیا باشندوں کی اس ہجرت کی تفتیش کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی ملک بدری کے درپردہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تو نہیں تھا۔
تاہم اس کے جواب میں جمعے کے روز نوبل انعام یافتہ جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کے ریاستی کونسلر دفتر سے جڑی وزارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایسی کوئی تفتیش عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی عدالت اگر اس معاملے پر تفتیش کا حکم دیتی ہے، تو ایسے کسی فیصلے کے سامنے کس قسم کی قانونی اور عملی پیچیدگیاں آ سکتے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ میانمار ’روم اسٹیچو‘ نامی معاہدے کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ اس معاہدے کے دستخط کنندہ ممالک آئی سی سی کی رکن ریاستیں کہلاتے ہیں۔ میانمار کے وزارتی بیان کے مطابق، ’’آئی سی سی کے چارٹر میں کہیں نہیں لکھا کہ جو ممالک آئی سی سی کے دائرہ کار کو تسلیم نہیں کرتے، وہ اس عدالت کے دائرہ اخیار کو قبول کرنے کے پابند ہوں گے۔‘‘
ع ت/ش ح (اے ایف پی)