1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا مسلمانوں کی حالت اور بھی خراب ہو سکتی ہے

مقبول ملک2 اکتوبر 2015

میانمار میں اگلے ماہ ہونے والے تاریخی انتخابات کے نتیجے میں پہلے ہی جبر اور استحصال کی شکار روہنگیا مسلم اقلیت کی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ ایک نئی انتہائی سخت گیر بودھ سیاسی جماعت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ghu3
تصویر: picture alliance/AP Photo

میانمار میں سِتوے سے جمعہ دو اکتوبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ جس نئی انتہا پسند بودھ پارٹی سے روہنگیا نسل کی مسلم اقلیتی آبادی کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اس کی سیاسی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ نئی پارلیمان میں وہ ایک فیصلہ کن جماعت بن جائے۔

روئٹرز کے مطابق جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار کے مغربی کنارے پر راکھین نامی ریاست میں قوم پسند اقلیت کے اقتدار میں آنے سے ان روہنگیا مسلمانوں کے استحصال اور ان کے ساتھ امتیازی رویوں میں مزید شدت آ سکتی ہے، جو ویسے بھی بے وطن ہیں اور جن میں سے ہزارہا حالیہ برسوں میں راکھین سے فرار ہو کر میانمار کے ہمسایہ ملکوں کا رخ کر چکے ہیں۔

حکومت زیادہ تر روہنگیا باشندوں کو ان انتخابات میں امیدوار بننے یا ووٹ دینے سے روک چکی ہے، جس پر اقوام متحدہ تک کی طرف سے بھی شدید تنقید کی گئی تھی۔ دوسری طرف میانمار کی حکومت ابھی تک اپنی یہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، جن کے تحت وہ نومبر کی آٹھ تاریخ کو ہونے والے اس الیکشن کو ابھی سے ملک کے اولین آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات قرار دے رہی ہے۔

جو نئی بودھ سیاسی جماعت راکھین کے روہنگیا مسلم باشندوں میں بےچینی کی وجہ بنی ہوئی ہے، اس کا نام آراکان نیشنل پارٹی ANP ہے، جو گزشتہ برس قائم کی گئی تھی۔ اس پارٹی نے اس مقصد کے لیے انتھک کام کیا کہ ملک کے ’عارضی شہریوں‘ کو انتخابی عمل میں کسی بھی صورت میں شرکت سے روک دیا جائے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ایک ملین کے قریب روہنگیا باشندوں کی اکثریت بھی الیکشن میں امیدوار بننے یا اپنا ووٹ کا حق استعمال کر سکنے سے محروم ہو گئی، حالانکہ یہ لاکھوں اقلیتی باشندے پہلے ہی نسلی امتیاز کی طرح کے سے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

Myanmar Rettung von Flüchtlingen
حالیہ برسوں میں میانمار سے فرار ہو کر ہزارہا روہنگیا مہاجرین کے طور پر دیگر ہمسایہ ملکوں کا رخ کر چکے ہیںتصویر: picture-alliance/EPA/Myanmar Information Ministry

اس مسلم نسلی اقلیت کے باشندوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے میانمار میں آنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ یہی باشندے کئی نسلوں سے میانمار میں آباد ہیں لیکن ابھی تک ان کی بہت بڑی اکثریت کو قانوناﹰ کسی بھی ملک کے شہری حقوق حاصل نہیں اور وہ بےوطن ہے۔

روہنگیا باشندوں کو اے این پی نامی پارٹی کی سیاسی سوچ کی صورت میں کس طرح کے خطرات کا سامنا ہے، اس کا ثبوت اس بودھ سیاسی جماعت کا طرز سیاست بھی ہے۔ مثلاﹰ راکھین کے ریاستی دارالحکومت سِتوے میں اس پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر جو بورڈ لگے ہوئے ہیں، ان پر لکھا ہے: ’’اے این پی کا مطلب ہے: ہم آئے، ہم نے دیکھا اور ہم نے سب کچھ فتح کر لیا۔‘‘

اس کے علاوہ اس سیاسی جماعت کے پمفلٹ اور کتابچے بھی پارٹی کی سخت گیر سوچ کے اظہار میں کوئی کمی نہیں رہنے دیتے۔ ان میں لکھا ہے: ’’اپنی قومیت سے پیار کرو۔ اپنے خون کو خالص رکھو۔ راکھین بنو اور اے این پی کو ووٹ دو۔‘‘

آراکان نیشنل پارٹی کی ایک خاتون نائب سربراہ کہتی ہیں، ’’ہم ان باشندوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر استعمال کی جانے والی ’بےوطن باشندوں‘ کی اصطلاح کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم چاہیں گے کہ روہنگیا کو یا تو کیمپوں میں بھیج دیا جائے یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں