روہنگیا کو تعاون کی اشد ضرورت ہے، اقوام متحدہ
24 ستمبر 2017اتوار کے روز عالمی ادارہ برائے مہاجرین UNHCR کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لاکھوں روہنگیا مہاجرین کی آمد کے بعد بنگلہ دیش کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے امداد مہیا کی جانا چاہیے۔ بتایا گیا ہے کہ میانمار کی راکھین ریاست میں گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ کو شروع ہونے والے سرکاری فورسز کے آپریشن کے بعد سے اب تک چار لاکھ چھتیس ہزار روہنگیا باشندے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔
روہنگیا بحران: سات ممالک نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا
روہنگیا مسلمانوں کی سعودی امداد ’اقتصادی مفادات کا تحفظ‘
فیس بُک نے روہنگیا عسکری گروپ پر پابندی لگا دی
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین فیلیپو گرانڈی نے اتوار کے روز اپنے بیان میں کہا کہ ان مہاجرین کی وجہ سے جنوبی بنگلہ دیشی علاقے کاکس بازار میں مہاجر بستیوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ روہنگیا مقیم ہیں۔ انہوں نے یہ بعد ان مہاجر بستیوں کے دورے کے بعد کہی۔
’’میں ان افراد کی ضروریات دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ انہیں ہر چیز کی ضرورت ہے۔ انہیں خوراک درکار ہے، ان کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے، انہیں چھت چاہیے، انہیں طبی سہولیت درکار ہیں۔‘‘
گرانڈی نے کہا کہ مقامی بنگلہ دیشی آبادی غیرمعمولی طور پر ان مہاجرین کی امداد کی رہی ہے، تاہم مہاجرین کی تعداد اور ضروریات کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھاری امداد کی ضرورت ہے۔
گرانڈی نے کہا کہ حالیہ کچھ دنوں میں میانمار سے بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا کی افراد میں کچھ کمی ہوئی ہے، تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مزید مہاجرین نہیں آ سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ ان مہاجرین کی رجسٹریشن کے لیے عالمی ادارہ برائے مہاجرین بنگلہ دیشی حکومت کو ’تکنیکی معاونت‘ فراہم کر رہا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ روہنگیا افراد دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت کے حامل نہیں ہیں اور انہیں میانمار میں بھی ’غیرقانونی تارکین وطن‘ قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت روہنگیا مہاجرین کی مجموعی تعداد سات لاکھ کے قریب ہے، تاہم ڈھاکا حکومت بھی ان میں سے نہایت قلیل تعداد کو باقاعدہ طور پر ’مہاجر‘ تسلیم کرتی ہے، باقی تمام افراد کو ’میانمار کے عدم دستاویزات کے حامل شہری‘ قرار دیا جاتا ہے۔