ریاست راکھین سے ایمرجنسی اٹھا لی گئی
29 مارچ 2016میانمار کی مغربی ریاست راکھین سے یہ ایمرجنسی ایک ایسے وقت پر اٹھائی گئی ہے جب آنگ سان سوچی کی نئی حکومتی انتظامیہ اور ریاست راکھین کی طاقتور بدھ سیاسی جماعت کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔
میانمار کی ریاست راکھین 2012ء میں بدھ مت کے ماننے والوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان مذہبی فسادات شروع ہونے کے بعد سے فرقہ ورانہ تشدد کا شکار رہی ہے۔ اس ریاست کی صورتحال میانمار کی گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران پہلی بار عوامی حمایت سے منتخب ہونے والی حکومت کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک غیر متوقع پیشرفت کے طور پر اپنی مدت صدارت ختم کرنے والے صدر تھان سین نے آج منگل 29 مارچ کو ریاست راکھین سے ایمرجنسی ختم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو بے گھر کرنے والے فسادات کے بعد حکومت نے جون 2012ء میں اس ریاست میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔
ایمرجنسی اٹھانے کے حوالے سے جاری ہونے والے صدارتی بیان میں کہا گیا ہے، ’’ریاست راکھین کی حکومت کے مطابق اس وقت لوگوں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔‘‘ ایمرجنسی کے خاتمے سے وہاں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے تعینات فوج کو واپس بُلا لیا جائے گا۔
اے ایف پی کے مطابق راکھین میں گزشتہ دو برس سے کسی قسم کا تشدد تو نہیں پھوٹا مگر یہ ریاست مذہبی بنیادوں تقسیم ضرور ہے۔ زیادہ تر مسلمان یا تو کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں یا پھر انہیں بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب شدید حفاظتی علاقوں میں رکھا گیا ہے۔
میانمار میں بدھ مت کے ماننے والوں میں بڑھتی ہوئی قومیت پسندی کے باعث ملک کی اقلیتی مسلمان آبادی کے خلاف امتیاز بڑھ رہا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن سمجھا جاتا ہے۔ میانمار کے قوانین کی رُو سے روہنگیا بغیر ریاست کے شہری ہیں اور جنہیں گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کا حق بھی نہیں دیا گیا تھا۔
امتیازی سلوک کا نشانہ بننے والے یہ روہنگیا مسلمان ہزاروں کی تعداد میں ہمسایہ ممالک کا رُخ کر چکے ہیں جن میں تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔
ایمرجنسی کے خاتمے کا یہ صدارتی حکم سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے خلاف اے این پی نامی جماعت کے ارکان پارلیمان کی طرف سے احتجاج کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔ یہ احتجاج این ایل ڈی کی طرف سےاپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی امیدوار کو ریاست راکھین کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد کیا گیا۔ اے این پی میانمار کی ایک مضبوط ترین اقلیتی سیاسی جماعت ہے۔