'ریحام خان‘: غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح جو متنازعہ ہو گئی
6 جون 2018پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک ایسے سیاسی رہنما ہیں، جن کی نجی زندگی میں پاکستانی عوام کی بہت بڑی اکثریت گہری دلچسپی رکھتی ہے۔
عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی جو کتاب اس وقت پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے، وہ دراصل ایک خود نوشت سوانح حیات ہے، جس کا عنوان بھی مصنفہ کا اپنا نام ہے: ریحام خان۔ یہ کتاب ابھی شائع بھی نہیں ہوئی لیکن اس کے مندرجات ایسے ہیں کہ اس سوانح حیات کا مسودہ بھی جتنا مشہور ہوا ہے، اتنا ہی وہ متنازعہ بھی ہو چکا ہے۔
ایک کتاب کے طور پر ’ریحام خان‘ متنازعہ کیوں ہے اور اس کے مسودے کے اشاعت سے پہلے ہی لیک ہو جانے کا وقت کتنا اہم ہے، اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے گفتگو کی، معروف سیاسی تجزیہ نگار منصور اکبر کنڈی سے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، تو لگتا ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کئی حلقے اسے ایک سازشی نظریے کے تحت کیے جانے والے پراپیگنڈا کا نام بھی دے رہے ہیں۔ اب جب کہ عام انتخابات سر پر ہیں، عمران خان کے خلاف اس کتاب کا غیر مطبوعہ حالت میں بھی سامنے آ جانا ظاہر کرتا ہے کہ اس سے پی ٹی آئی کے سربراہ کی سیاست اور سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
منصور اکبر کنڈی کے بقول ممکن ہے کہ اس کتاب کو شائع ہونے ہی نہ دیا جائے۔ اور اگر یہ چھپ بھی گئی تو انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کو صرف ایک خاص طبقہ یعنی کم ہی لوگ پڑھ سکیں گے۔ انہوں نے بتایا، ’’یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے لیے ادائیگی بھی کر دی گئی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہو، لیکن ابھی تک یہ کوئی مصدقہ حقیقت نہیں ہے۔‘‘
عمران خان اب تک تین شادیاں کر چکے ہیں اور ریحام ان کی دوسری بیوی تھیں۔ عمران خان سے شادی کرنے والی خواتین میں سے ریحام وہ واحد خاتون ہیں، جو صحافتی پس منظر کی حامل ہیں اور ان کی کتاب ’ریحام خان‘ سے مصنفہ کے ممکنہ سیاسی عزائم کا پتہ بھی چلتا ہے۔ اس کتاب یا اب تک کتابی مسودے کی عوام اور پاکستانی میڈیا کی نظروں میں اہمیت اس وجہ سے بھی کافی زیادہ ہے کہ عمران خان اور ریحام خان کی قانونی علیحدگی بڑے ناموافق حالات میں ہوئی تھی اور اب یہ بھی کسی حد تک ممکن نظر آنے لگا ہے کہ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد عمران خان پاکستان میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر بھی فائز ہو سکتے ہیں۔
ریحام خان کی کتاب شاید عمران خان کی سیاسی زندگی میں ان کے لیے ایک رکاوٹ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ اندازہ اس شدید ردعمل سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جو اس کتاب کے بارے میں عمران کے قریبی ساتھیوں اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے ظاہر کیا ہے۔
عمران خان کی سیاست پاکستان میں بہت مقبول بھی ہے اور متنازعہ بھی۔ پہلی شادی سے لے کر اب تک ان کی ازدواجی زندگی میں ٹھہراؤ کی کمی رہی ہے۔ اسی لیے لوگ ان کی نجی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور ریحام خان کی کتاب معلومات کی اس کمی کو پورا کرتی نظر آتی ہے، لیکن ایک متنازعہ انداز میں۔
پاکستان میں یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ اس کتاب کی اشاعت کی تیاریوں کے پیچھے مبینہ طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مسلم لیگ ن کا ہاتھ ہے۔ اس سلسلے میں اس جماعت کا موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے اور سابق وفاقی وزیر سعد رفیق سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایسے دعووں کو پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے بتایا، ’’کہنے کو تو کیا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اور کہا بھی جا رہا ہے۔ ہم بھی بہت کچھ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے، اس کا تعین کون کرے گا؟ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ محض قیاس آرائیوں سے نہیں بلکہ مکمل تحقیق کے بعد ہوتا ہے۔ اس کتاب کے شائع ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہو جانے کے بعد تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ تو اس وقت کچھ بھی کہنے سے بہتر یہ ہو گا کہ نتائج کا انتظار کیا جائے۔‘‘
عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینیٹر سید شبلی فراز نے ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ ہمیں پہلے بھی شبہ تھا۔ اب یقین ہو گیا ہے کہ پچیس جولائی کے عام الیکشن سے قبل نواز شریف ریحام خان کے ساتھ مل کر یہ کتاب شائع کروائیں گے۔ نواز لیگ نے اس کتاب کو پروموٹ کیا ہے، جس کا واضح مقصد عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچانا ہے۔ اس کتاب میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ریحام بدلہ لینا چاہتی ہیں اور سیاسی نقصان پہنچانے کی خواہش مند ہیں۔ ہم کسی بھی صورت میں اس کتاب کو چھپنے نہیں دیں گے۔ قانونی چارہ جوئی کریں گے کہ آزادی اظہار اور آزادی رائے کا یہ کوئی طریقہ نہیں کہ بے بنیاد پراپیگنڈا شروع کر دیا جائے۔‘‘
اسی بارے میں تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی غلام سرور نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اب واضح ہو چکا ہے کہ ریحام کی عمران خان سے شادی، پھر طلاق اور اب یہ کتاب سب کچھ ایک منصوبہ بندی کا حصہ تھا، جس کا مقصد پی ٹی آئی کے سربراہ کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانا ہے۔ غلام سرور کے مطابق اس مبینہ سازش میں نواز شریف خاندان ریحام خان سے ملا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’دن کو کیا ہوا اور رات کو کیا کچھ ہوا۔ یہ سب کچھ لکھنا غیر ذمے دارانہ حرکت تو ہے لیکن سوانح حیات لکھنے کایہ کوئی مہذب طریقہ بالکل نہیں۔‘‘
ریحام خان کی اسی کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے عبدالستار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ایک نجی نوعیت کا معاملہ ہے۔ دو افراد کی شادی ہوئی، پھر قانونی علیحدگی ہو گئی۔ سابقہ بیوی کے پاس جو معلومات تھیں، ان کی بنیاد پر اب اگر وہ کوئی کتاب شائع کرنا چاہتی ہیں، تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟‘‘
عبدالستار کے بقول پاکستان میں اب یہ رواج بنتا جا رہا ہے کہ ہر بات کو مسئلہ بنا دیا جائے، جس طرح پورے ملک میں اس کتاب پر بحث ہو رہی ہے، اس کے ذریعے اس کتاب کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستانی قومی اسمبلی کے اس سابق رکن نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے بطور وزیر اعظم نواز شریف کو جن آئینی شقوں کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا تھا، اس کتاب کی اشاعت کے بعد عمران خان کی سیاست پر بھی بہت برا اثر پڑے گا۔ مسلم لیگ ن کے اس سیاستدان نے اپنی جماعت کی سب سے بڑی حریف پارٹیوں میں سے ایک پی ٹی آئی کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا، ’’آئین کی جن شقوں کا اطلاق نواز شریف پر کیا گیا، وہی شقیں اگر دیگر سیاسی شخصیات پر بھی لاگو کی جائیں تو بڑے بڑے نااہل ہو جائیں گے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح کی الزام تراشی اور برا بھلا کہتے رہنے کی سیاست عمران خان نے اپنائی ہے، اس نے بہت سے نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر گھول دیا ہے۔‘‘
اس کتاب میں شامل مبینہ ہتک آمیز مواد کی وجہ سے ریحام خان کو اب تک عمران خان، مصنفہ کے پہلے شوہر اعجاز رحمان، سابق سٹار کرکٹر وسیم اکرم اور چند دیگر شخصیات کی طرف سے قانونی نوٹس بھی بھجوائے جا چکے ہیں۔ ریحام خان کی پہلی شادی اعجاز رحمان سے ہوئی تھی، جن سے طلاق لینے کے کافی عرصے بعد ریحام نے عمران خان سے شادی کی تھی۔