ریمنڈ ڈیوس سے متعلق طالبان کا موقف
14 فروری 2011اس بارے میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان اعظم طارق نے ایک نامعلوم جگھ سے ٹیلی فون پر خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی کی سزا دے یا پھر اسے ہمارے حوالے کر دیا جائے، ہم اس کی قسمت کا فیصلہ خود کر لیں گے۔‘
اعظم طارق نے ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کا ایک جاسوس قرار دیا۔ ’’ریمنڈ ڈیوس یہاں جاسوسی کر رہا تھا۔ وہ ایک امریکی جاسوس ہے۔ ہم ایسے افراد کو قتل کر دیں گے، جو ڈیوس کو مدد فراہم کریں گے یا اسے آزاد کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
ممنوعہ تنظیم ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے ترجمان نے ریمنڈ ڈیوس کو ’قاتل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقتولین کے خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔
پاکستانی میڈیا میں ریمنڈ ڈیوس کو ایک نجی سکیورٹی اہلکار یا پھر ایک امریکی خفیہ ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی حکام نے بھی اس کی شناخت کے بارے میں ابھی تک کوئی ٹھوس معلومات فراہم نہیں کیں۔ واشنگٹن حکومت نے ڈیوس کے مکمل نام اور اس کی ملازمت کے حوالے سے کوئی بھی تصدیق کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ اس کے بارے میں صرف یہی بتایا گیا ہے کہ وہ امریکی سفارتخانے میں تکنیکی اور انتظامی شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔
ستائیس جنوری کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد جہاں پاکستانی عوام میں امریکہ مخالف جذبات میں شدت دیکھنے میں آ رہی ہے وہیں پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات میں تناؤ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ کے پر زور مطالبات کے باوجود صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہہ رکھا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالتوں میں حل کیا جائے گا۔ واشنگٹن حکومت کا کہنا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو حاصل سفارتی مامونیت تسلیم کرتے ہوئے اسے امریکہ کے حوالے کر دیا جائے۔
ڈیوس کی رہائی کے معاملے پر امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ کیے جانے والے سالانہ سہ فریقی مذاکرات بھی مؤخر کر دیے ہیں جبکہ امریکی کانگریس کے متعدد اراکین نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر ڈیوس کو آزاد نہ کیا گیا تو پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد میں کٹوتی بھی ممکن ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک