1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریناسانس کا دوسرا رخ

19 ستمبر 2021

یورپ میں ریناسانس یا نشاط ثانیہ کے اثرات کیا رہے؟ اور کیا اسے فقط ایک مثبت تحریک قرار دیا جا سکتا ہے یا اس کا ایک تنقیدی پہلو بھی موجود ہے؟ ڈاکٹر مبارک علی کا بلاگ

https://p.dw.com/p/40FI4
Mubarak Ali
تصویر: privat

تاریخ میں واقعات اور حادثات کی اہمیت ہے، کیونکہ یہی ماضی کی تشکیل کرتے ہیں۔ مورخ کچھ واقعات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور کچھ کو کم اورکچھ واقعات کو بالکل غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن ہر واقعہ تاریخ کے عمل کی زنجیر کو آپس میں ملائے رکھتا ہے۔ مورخ اپنے نقطہ نظر سے کسی واقعے کو تاریخ کی تبدیلی میں اہم قرار دیتے ہیں اور اس کی تشریح اس طرح سے کرتے ہیں کہ جیسے اس کے نتائج ان کے مفادات کو پورا کرتے ہیں لیکن کسی بھی واقعہ کو کئی پہلوؤں سے دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کے نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں۔

ریناسانس کا واقعہ یورپ کی تاریخ میں دو مرتبہ ظہور پذیر ہوا۔ کچھ مورخ بارہویں صدی میں یورپ میں ہونے والے واقعات کو یہ نام دیتے ہیں لیکن بارہویں صدی میں ہونے والی تبدیلی زیادہ گہری نہیں تھی۔ اس لیے پندرہویں صدی میں اٹلی میں جو نئی سوچ اور فکر پیدا ہوئی اس نے دانشوروں کی ایک جماعت کو پیدا کیا، جس نے سب سے پہلے چرچ کی بالادستی پر سوالات اٹھائے، کیونکہ مذہبی پابندیوں نے سوچ کے تمام راستوں کو بند کر رکھا تھا۔ عہد وسطیٰ میں چرچ کے تحت جن علوم کی سرپرستی کی گئی تھی انہوں نے سوسائٹی کو جکڑ رکھا تھا۔ لہٰذا سب سے پہلے تو اس عہد کے دانشوروں نے ان پابندیوں کو رد کرتے ہوئے اپنے خیالات اور افکار کے لیے یونانی اور رومی تہذیبوں کی جانب دیکھا۔ ان دونوں تہذیبوں کا تعلق پے گن نظریات سے تھا، اس لیے ان میں نہ تو مذہبی پابندیاں تھیں اور نہ ہی ان کے خیالات پر دیوتاؤں کا تسلط تھا۔

اس لیے یہ سیکولر نظریات رکھتے تھے۔ اٹلی کے دانشوروں نے ان تہذیبوں سے انسان دوستی کے افکار سیکولرازم، انسانی آزادی کا تصور اور یہ کہ انسان ہی اپنے مقدر کا مالک ہوتا ہے اور اسی ذہن نے سوسائٹی کی تشکیل کا کام شروع کیا۔ ادب، آرٹ، تعمیرات، سیاسیات، تجارت اور فنون حرب میں ترقی کی۔ ریناسانس کی تحریک اٹلی سے شروع ہو کر جرمنی، ہالینڈ اور انگلینڈ تک پہنچی اور اسی کے نتیجے میں یورپ میں Reformation کی تحریک بھی شروع کی، جس نے یورپ کی تاریخ میں مزید ترقیاں کیں۔

مغربی یورپ نے تو ریناسانس سے فائدہ اٹھایا، لیکن مشرقی یورپ کے ممالک اس کی وجہ سے سیاسی ابتری اور غلامی کا شکار ہوئے۔ مشرقی یورپ کے ملکوں پریونانی اور رومی تہذیبوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی انہوں نے ان کو اپناماڈل بنایا۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنی قومی تاریخ اور کلچر کو محفوظ رکھا، لیکن جب مغربی یورپ فوجی لحاظ سے طاقتور ہوا تو Ayustro -Hapsberg  Empire نے مشرقی یورپ کے ملکوں کو اپنے سیاسی تسلط میں لے کر ان کو آزادی سے محروم کر دیا۔ پولینڈ کی ریاست کو یوروشیا، آسٹریا اور روس نے باہمی تقسیم کرکے اس کا خاتمہ کر دیا۔ لہٰذا مشرقی یورپ ملکوں نے ریناسانس کی وجہ سے ہونے والی ترقی کی قیمت ادا کی، اگرچہ روس بھی ریناسانس کے اثرات سے دور رہا اور ذار پیٹر نے یونانی اور رومی تہذیبوں کے بجائے یورپ کی تہذیب کو اپنا ماڈل بنایا، تاکہ اس کی بنیاد پر روس ترقی کرکے ان کے برابر ہو جائے۔

ریناسانس کے بارے میں ایک دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ کیا اس نے جدید علوم کی وجہ سے یورپ کے معاشرے میں ذہنی تبدیلی کی تھی اور اسے انسانی بنیادوں پر تشکیل دینے کی کوشش کی تھی۔ کیا وہ اس میں کامیاب رہا؟ اس سوال کا جواب ہمیں 18ویں صدی کے واقعات سے ملتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب یورپی ملکوں نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کرکے وہاں لوگوں کا قتل عام کیا اور ان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی۔ اس ظلم و جبر میں ریناسانس کی انسانیت کہیں نظر نہیں آتی ہے۔

20ویں صدی کے یورپ میں جب اٹلی، جرمنی اور اسپین میں فاشسٹ حکومتیں قائم ہوئی جنہوں نے نسل پرستی، سامراجی انتہا پسندی اورسوسائٹی میں سیاسی پابندیاں لگا کر آزادی اور رواداری کو ختم کر دیا۔ اٹلی میں میوسولینی نے، جرمنی میں ہٹلر نے اور اسپین میں فرانکو نے آمریت اور ریاستی جبر قائم کرکے لوگوں کی آزادی اور خیالات پر پابندیاں لگا کر اپنے ملکوں کو جنگوں اور خونریزی میں مبتلا کر دیا۔ اس لیے فرینکفرٹ اسکول کے دانشور Adorno نے ریناسانس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ یورپ کے ذہن کو بدلنے میں ناکام رہی۔

 

چونکہ تاریخ میں ریناسانس کی تحریک کو مثبت انداز میں پیش کیا جاتا ہے اس لیے ایشیا، افریقہ کی تاریخ لکھتے ہوئے اکثر مورخ ریناسانس کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہیں۔ جیسے اسلام میں ریناسانس جس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرہ قدامت سے نکل کر جدیدیت کی طرف آرہا ہے، لیکن ہم اس کے اثرات عملی طور پر نہیں دیکھ پاتے۔ اسی طرح سے بنگال میں بیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی ریناسانس کہا گیا، لیکن وہاں بھی یہ تحریک عملی طور پر بنگال کی ترقی کا اظہار نہیں ہے۔

تاریخی اصطلاحات پر ملک کے اپنے حالات و واقعات اور حادثات کے نتیجے مں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر انہیں ایک دوسرے تاریخی ماحول میں استعمال کیا جائے تو ان کے ذریعے واقعات کی پوری تشریح نہیں ہوتی ہے اور یورپ کی ریناسانس کو بھی ایک ہی رخ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے دوسرے رخ کابھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اسی صورت میں ہم اس کی گہرائی کو پہنچ سکیں گے اور اس کے اثرات کا جائزہ بھی لے سکیں گے۔