زمین پر ہی مریخ کے دورے
مریخ پر جانے کے لیے پرعزم سائنسدانوں کا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ان کی پہلی منزل زمین ہی ہو گی۔
شاندار نظارہ
ہوائی کے جزیرے پر آتش فشاں ماؤنا لوآ کی سنگلاخ چٹانوں پر مریخ کا ایک ’مصنوعی تجرباتی سفر‘ کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ اٹھائیس اگست سے شروع ہونے والے اس غیر حقیقی سفر میں ایک سال کے دوران چھ مختلف افراد تجربات کریں گے۔ یہ سائنسدان ایک ایسے گنبد نما خیمے میں رہیں گے، جس کے ارد گرد پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
مریخ پر قیام
اس مصنوعی مشن HI-SEAS 4 میں جرمن خاتون سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کی مالی معاونت سے تیار کردہ اس مشن میں متعدد خلا باز مختلف قسم کی سرگرمیاں مکمل کریں گے۔ اس مشن کا مقصد یہ جاننا ہے کہ مستقبل میں مریخ پر جانے والے خلا بازوں کے مشترکہ مسائل کی وجہ سے ان کا مشن کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے۔
آرام دہ رہائش
پانچ امریکی اور یورپی سائنسدانوں کے ہمراہ جرمن سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی اس خیمے میں وقت گزاریں گی۔ اس آرام دہ رہائش گاہ کا قطر گیارہ میٹر ہے۔ ہفتے میں دو مرتبہ یہ سائنسدان اپنا خلائی لباس پہن کر مصنوعی حالات میں اپنے خیمے سے باہر نکل کر تجربات کریں گے۔ باقی تمام وقت یہ اسی خیمے میں ہی گزاریں گے۔ یہ باہر کی دنیا سے صرف ریکارڈ شدہ پیغامات اور ای میل کے ذریعے ہی رابطہ کر سکیں گے۔
سرخ سیارہ، بے جان سیارہ
ہوائی یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق آتش فشاں ماؤنا لوآ مریخ کے اس خیالی مشن کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔ ان دونوں مقامات پر نباتات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنگلی حیات بھی موجود نہیں اور آپ کہیں پانی بھی نہیں دیکھ سکتے۔
خطرناک سفر
حقیقی مشن کے دوران سرخ سیارے پر پہنچنے کے لیے ہی آٹھ ماہ درکار ہوں گے۔ سائنسدان ایسے کسی مشن سے پہلے بھرپور تیاری کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ طویل سفر خلا بازوں پر کس طرح کے ممکنہ اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ خلا باز تنہائی کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ کوئی باہمی تنازعہ پیدا ہوا تو کیا کریں گے؟ سائنسدانوں کو تحفظات کا سامنا ہے کہ اس طویل مشن سے خلا بازوں میں ڈپریشن اور سستی بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
مریخ 500
’مارس 500‘ نامی ایک اسٹڈی ماسکو میں کی گئی تھی۔ 2010ء اور 2011ء کے دوران کیے گئے اس مطالعے میں بھی مریخ کا ایک مصنوعی مشن مکمل کیا گیا تھا۔ 520 دنوں کے اس طویل مشن میں مریخ سے واپسی کی تصوراتی پرواز بھی شامل تھی۔ خلا بازوں کی تنہائی کے حوالے سے یہ طویل ترین مطالعہ تھا۔ نتائج کے مطابق چند خلا باز مصنوعی حالات کی وجہ سے کچھ ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔
اونچے گلیشیئر پر
گلیشیئر پر مصنوعی تجرباتی مریخ مشن Amadee-15 کے دوران نتائج کچھ مختلف رہے۔ اس مشن کے دوران خلا بازوں نے آسٹریا میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں انتہائی اونچائی پر واقع برفانی تودوں میں وقت گزارا۔ دو ہفتے طویل اس مصنوعی مشن کو موسم سرما میں مکمل کیا گیا تھا۔
صحرا میں
خلائی امور کے حوالے سے آگاہی کے منصوبے چلانے والی ’مارس سوسائٹی‘ نامی غیر سرکاری تنظیم نے تجربات کے لیے تین سینٹرز بنائے ہیں۔ ان میں سے ایک صحرائی تحقیقی مرکز امریکا کی ریاست یُوٹاہ کے صحرائی علاقوں میں بھی بنایا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک چوتھا سینٹر آسٹریلیا کے شمالی ایڈیلڈ علاقے میں قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
دنیا کا سب سے الگ تھلگ علاقہ
مریخ کو بے جان، سرد اور انتہائی الگ تھلگ سیارہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی خصوصیات انٹارکٹیکا کی بھی ہیں۔ اسی لیے مریخ کے سفر کی تیاریوں کے سلسلے میں اس براعظم پر بھی ایک سینٹر بنایا گیا ہے۔ وہاں زندگی انتہائی مشکل ہے، بالخصوص تاریخ موسم سرما کے دوران۔ سائنسدان وہاں قائم تجربہ گاہ میں خلا بازوں پر تنہائی کے اثرات کے علاوہ نفسیاتی دباؤ کی کیفیت اور نیند کے اوقات میں خلل کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔
زیر آب گہرائی میں بھی تجربات
ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی انسان نہ تو مریخ پر رہ سکتا ہے اور نہ ہی پانی میں۔ اسی لیے سائنسدانوں نے سمندر کی گہرائیوں میں بھی تجربہ گاہیں قائم کی ہیں، جہاں نہ روشنی ہے اور نہ ہی ہوا۔ ناسا نے فلوریڈا میں کی لارگو نامی جزیرے سے منسلک پانیوں میں 62 فٹ کی گہرائی میں ایک تجرباتی اسٹیشن قائم کیا ہے۔ وہاں تین ہفتوں کے لیے مختلف افراد کو بھیجا جاتا ہے اور ان پر مصنوعی ماحول کا اثر جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہر شے کا تجربہ ضروری
مریخ کے سفر پر تجربات کے علاوہ محققین یہ جاننے کی کوشش میں بھی ہیں کہ اس سرخ سیارے پر قیام کے دوران انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جرمن ایئر سپیس سینٹر میں Envihab نامی ایک ایسی طبی تجربہ گاہ بھی بنائی گئی ہے جہاں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی دوسرے سیارے کا ماحول انسان پر کیا کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
خوراک کا انتظام
مریخ پر کاشت کاری ممکن نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اس بے جان سیارے پر طویل قیام کرتے ہیں تو وہ کیا کھائیں گے؟ Envihab میں سرگرم سائنسدان اپنے تجربات میں یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ایسا کون سا پودا ہے، جو گلاس کے مرتبان میں نشو ونما پا سکتا ہے، تاکہ مریخ پر قیام کرنے والوں کو تازہ خوراک فراہم ہو سکے۔
مریخ پر جانے کی بے قراری
ترقی یافتہ ممالک مریخ مشن کو عملی جامہ پہننانے کے حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ شاید 2030ء یا 2035ء تک مریخ پر جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم فی الحال انسانوں کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے زمین پر ہی تجربات جاری رکھنا ہوں گے۔