یہی نہیں اگر ان جذبات میں توازن بگڑ جائے تو بھی بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں۔ اگر یہ عدم توازن کسی فرد سے نکل کر پورے سماج میں پھیل جائے تو یہ امر سنگین ہو جاتا ہے۔
بہ قول جون ایلیا:
بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
اور امام بخش ناسخ کا وہ مشہور شعر،
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
اپنے آپ میں مکمل پیغام ہے۔ زندگی کی اس زندہ دلی کو حسن نظر، رخِ روشن، کسی چیز کی گیرائی اور گہرائی کو جاننے اور اسے محسوس کرنے سے ہے۔ کوئی چیز اچھی ہے تو اس اچھائی کو محسوس کرنا اور اسے دوسرے تک پہنچانا۔ جیسے کہتے ہیں کہ خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے، تو یہ خوشی اس جمالیاتی حس ہی کے وسیلے پہنچتی ہے اور پھر سماج میں پھیلتی ہے، بالکل ایسے ہی اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر غیر جمالیاتی پن اور اکتاہٹ بھی دیگر لوگوں میں سرائیت کرتی ہے۔
کچھ ماہرین اسے مثبت سوچ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تو کچھ لوگ اسے نئے ماحول میں مطالعے، مشاہدے اور سفر کی کمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے نہیں ہیں، سوچتے نہیں ہیں، گپیں نہیں ہانکتے، مکالمہ اور بحث نہیں کرتے، اس کے نتیجے میں ان کی جمالیاتی حس پروان نہیں چڑھ پاتی اور ہم شکوہ کرتے ہیں کہ عدم برداشت بڑھ گئی ہے، لوگ اداس اور پریشان رہتے ہیں۔
لڑنے مرنے پر آمادہ، جلد ہی کسی سے نفرت یا محبت کا فیصلہ کر لیتے ہیں، تعلق جتنے جلدی قائم کرتے ہیں، اس سے زیادہ جلدی عمر بھر کے لیے منقطع کر ڈالتے ہیں۔ ان سب عوامل کے تانے بانے کسی نہ کسی طرح اسی جمالیاتی حس کے ناپید ہونے سے جا ملتے ہیں۔
جمالیاتی حس آپ کو کسی بھی منظر کا دل دادہ اور کسی فن کا قدر دان بناتی ہے۔ آپ حسن اور خوب صورتی کی پہچان کرنے لگتے ہیں، آپ مختلف کیفیات کا ادراک کر کے ان کے اظہار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب آپ اس کا ادراک ہی نہیں رکھتے تو آپ ان کیفیات اور جذبات کے اظہار کے لیے لفظ سے ہی دور ہو جاتے ہیں۔
جیسے ہم کوئی بھی زبان بولیں، ہمارا ذخیرہ الفاظ صرف روز مرہ کے ضروری کاموں سے متعلق ہی محدود ہو گیا ہے۔ کبھی غور کیجیے گا کہ اب ہمیں ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے نام تک نہیں پتا جو ہمارے بڑے بہت آسانی سے استعمال کرتے تھے۔ اس سب کی بہت بڑی وجہ تیز رفتاری اور صرف روزی روٹی اور طے شدہ لگی بندھی اور ہم پر تھوپ دی گئی تفریحی سرگرمیاں ہیں۔
ہم کسی گاڑی میں جوت دیے گئے مویشی کی طرح بس دوڑے چلے جا رہے ہیں اور جون ایلیا کے الفاظ میں صرف زندہ ہیں، کسی بھی ذائقہ اور لطف سے بہت پرے، ایسے ذائقے اور چاشنی سے محروم جو زندگی کے لیے ضروری ہیں۔
تبھی ہماری زندگی پھیکی اور اکتا دینے والی لگتی ہے، ہم بے وجہ کی بے چینی محسوس کرتے ہیں کیوں کہ ہم نفسیاتی جبلت کے اس چھوٹے سے لیکن بہت اہم جزو سے کٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی کو زندگی کی طرح جینا چاہتے ہیں تو ایسی سرگرمیوں کی طرف جائیے جہاں سے جمالیات کی سمجھ بوجھ پیدا ہو۔ مطالعہ، مشاہدہ، سفر اور ایسے علمی احباب کی مجلس کہ جہاں سوچ کے نئے در وا ہوں، سیکھنے کو پتا چلے۔ وہاں آپ کو پتا چلے گا کہ علم صرف ڈگری لینے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ علم زندگی کو زندگی بنانے والی ایک موثر قوت کا نام ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔