’ زہرآلود‘ گیس حملہ، درجنوں افغان طالبات بیمار
25 اپریل 2010مقامی حکام کے مطابق ممکنہ طور پر یہ حملہ طالبان کی جانب سے کیا گیا، جو لڑکیوں کے تعلیم کے خلاف ہیں۔ صوبائی پولیس سربراہ عبدالرزاق یعقوبی کے مطابق قندوز میں واقع ایک اسکول کی 48 طالبات اور متعدد استانیاں اچانک بیمار ہو گئیں۔ یعقوبی نے اس ممکنہ گیس حملے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا ہے۔
بارہ سالہ سُمعیلہ کے مطابق وہ اپنی کلاس میں موجود تھیں، جب کسی پھول کی طرح خوشبو انہیں محسوس ہوئی۔ سُمعیلہ ان طالبات میں سے ایک ہیں، جنہیں اس مشتبہ حملے کے بعد ہسپتال داخل کیا گیا ہے۔
’’میں نے دیکھا کہ میری ہم جماعت طالبات اور استانی زمیں پر گر گئیں۔ پھر مجھے ہوش نہیں رہا، جب میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو میں ہسپتال میں تھی۔‘‘
قندوز ہسپتال کے سربراہ عزیزاللہ صفر کے مطابق متعدد طالبات تاحال الٹیوں اور جسم میں درد کی شکایت میں مبتلا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان طالبات کو تمام ممکنہ طبی امداد دی جا رہی ہے۔
سن 1996ء سے سن 2001ء تک افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان نے خواتین کے لئے تعلیم ممنوع قرار دی تھی اور تاحال افغانستان کے بیشتر علاقوں میں لڑکیوں کے لئے تعلیم کی اجازت ایک مسئلے کی سی حیثیت رکھتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں افغانستان کے دیگر مختلف علاقوں میں طالبات کے اسکولوں پر حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔ ان میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں، جہاں طالبان بڑی تعداد میں موجود نہیں۔ یعقوبی کے مطابق گزشتہ ہفتے ہونے والے زہریلی گیس کے اس حملے کے بعد 20 طالبات کو قندوز کے ایک دوسرے ہسپتال میں بھی منتقل کیا گیا ہے۔
افغانستان کے مشرق اور جنوب میں طالبان کی زیرقبضہ علاقوں میں ابھی تک لڑکیوں کے اسکول بند ہیں اور ان علاقوں میں اساتذہ کو طالبان کی جانب سے دھمکیوں کے علاوہ متعدد طالبات پر تیزاب پھینکنے جیسے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس حملے کے باوجود سُمعیلہ پر امید ہیں کہ اگر ان کے والد نے انہیں اجازت دی تو وہ صحت یاب ہونے کے بعد اسکول جانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں گے۔
’’میں بہت خوفزدہ ہوں۔ میرے والدین بھی پریشان ہیں۔ میرے والد نے مجھے کہا کہ میں نے کافی پڑھ لیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں اس واقعے کے بعد اب وہ مجھے دوبارہ اسکول بھیجیں گے یا نہیں، مگر میں مزید پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : افسر اعوان