سائبر ہراسانی، ’محفوظ کوئی جگہ نہیں‘
15 اپریل 2019بچے سفاک بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے، جسے اسکول میں دوسرے بچوں کی جانب سے ہراسانی کا سامنا رہا ہو یا ایسے معاملے سے گزرنا پڑا ہو۔ انڈونیشیا میں ایسا ہی ایک معاملہ خبروں میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مقامی میڈیا کے مطابق 14 برس کی ایک بچی کو قریب 12 برس کی لڑکیوں کی جانب سے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بچی کو اتنا مارا گیا کہ اسے ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ اس حملے کی وجہ تھی، متاثرہ بچی کی جانب سے فیس بک پر ایک پوسٹ پر کیے جانے والے کچھ تبصرے۔
انڈونیشیا میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد ٹوئٹر پر بھی ہیش ٹیگ جسٹس فار اوڈری کے ساتھ بحث جاری ہے۔
چند خواتین نفرت آمیز سوشل میڈیا مہم کا شکار
سائبر کرائمز کی ماہر تفتيش کار اور پوليس افسر ’مِس جرمنی‘
یورپی یونین کے آن لائن سلامتی سے متعلق امور کے ادارے کلک سیف کی ایجوکیٹر اور ڈائریکٹر بِرگِٹ کِیمیل کے مطابق، ’’یہ تشدد کا بدترین واقعہ ہے، مگر یہ غیر عمومی نہیں۔ بچوں کے درمیان آن لائن دنیا میں پیش آنے والے تنازعات ان کی آف لائن یا حقیقی دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کئی بار ہراسانی کا آغاز آن لائن ہوتا ہے اور وہ حقیقی زندگی تک میں موجود ہوتی ہے اور کبھی حقیقی زندگی میں جاری ہراسانی آن لائن دنیا میں نظر آتی ہے۔
آن لائن دنیا میں ایک دوسرے کے درمیان تلخ جملوں کا استعمال نوجوانوں میں بے حد عام ہے اور چوں کہ زیادہ تر نوجوان اب اسمارٹ فونز کے حامل ہیں، اس لیے یہ چھیڑ چھاڑ کبھی کبھی سخت جملوں سے آگے بڑھ کر دھمکیوں بلکہ تشدد اور حملوں تک میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
کِیمیل کے مطابق، ’’کوئی بھی جگہ اب محفوظ نہیں ہے۔ آپ پر دن کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن حملہ کیا جا سکتا ہے۔ قریب تمام معاملات میں اسکول میں جاری چھیڑ چھاڑ اور تلخی آن لائن دنیا میں بھی نظر آتی ہے۔‘‘
کِیمیل اور دیگر سائبر ماہرین کے مطابق حقیقی دنیا کے تنازعات اور آن لائن ہراسانی کوئی الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن تصویریں پوسٹ کرنے اور تبصرے کرنے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ جرمن پولیس یونین کے خواتین کے شعبے کی سربراہ ایریکا کرائزے شؤنے کے مطابق، ’’ہمارے پاس ایسے اہلکار موجود ہیں جو اس سلسلے میں احتیاط کی تربیت دے سکتے ہیں اور مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر اسکولوں میں بچوں کو اس سلسلے میں اہم معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں احتیاطی تدابیر بچوں کو کم عمری میں سکھائی جانا ضروری ہے۔
کارلا برائیکر، ع ت، ع الف